Get Mystery Box with random crypto!

دارالافتاء بھاٹاباری

لوگوی کانال تلگرام daruleftabhatabari — دارالافتاء بھاٹاباری د
لوگوی کانال تلگرام daruleftabhatabari — دارالافتاء بھاٹاباری
آدرس کانال: @daruleftabhatabari
دسته بندی ها: دین
زبان: فارسی
مشترکین: 1.55K
توضیحات از کانال

"دارالافتاء بھاٹاباری"ٹیلیلی گرام کی دنیا کا سب سے زیادہ مکمل و مدلل حنفی دیوبندی چینل ہے جس میں مسائل کا بہت بڑا مجموعہ ہے ۔
سوال پوچھیں👇
@Daruleftabhatabarii_bot

مسئلہ تلاش کریں 👇
@FatwaBot
https://t.me/joinchat/AAAAAFUIaRVozEWMzYLUoQ

Ratings & Reviews

2.00

2 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

0

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 17

2021-06-06 04:09:24 مفتی منور بھاٹاباری بہت ہی زیادہ پریشان حال ہے اور متعلقین سے دعا کی پرخلوص گزارش


https://telegra.ph/مفتی-منور-بھاٹاباری-بہت-ہی-زیادہ-پریشان-حال-ہے-اور-متعلقین-سے-دعا-کی-پرخلوص-گزارش-06-06
1.4K views01:09
باز کردن / نظر دهید
2021-06-05 04:58:05 ▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒

کتاب الایمان و العقائد باب التبلیغ و الدعوۃ

سوال:(۱۱۷۴)

عنوان:- مفتی اور عالم کا جماعت میں سال لگانا ضروری ہے ؟

سوال: مفتی اور عالم کا جماعت میں سال لگانا کیسا ہے ؟ کیونکہ جو عالم اور مفتی جماعت میں سال نہ لگائے۔ لوگ ان کو عالم اور مفتی سمجھتے ہی نہیں۔۔۔ دارالعلوم دیوبند کا بھی کوئی فتویٰ اس سلسلے میں جاری کیا گیا ہو تو ارسال کردیں تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ اس طرح کی سوچ غلط ہے۔

✺✺=====••✦✿✦••=====✺✺
اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا:
یہ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ہے۔
سوال:عالم کا جماعت میں سال لگانا کیسا ہے ؟
جواب: عالم کا کام تفسیر و حدیث کی تعلیم و تدریس، امت کی ضروریات کے پیش نظر فتاوی نویسی کے ذریعہ ان کی رہبری، زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ان کو مسائل بتانا لوگوں کے بگڑے ہوئے عقائد کو درست کرنا، فرق ضالّہ اور فرق باطلہ کے حملوں سے اسلام اور مسلمانوں کو بچانا، عبادات ، اخلاق اور معاملات میں بگاڑ کی وجہ سے قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرنا، طرح طرح کے اٹھنے والے آئے دن کے فتنوں کو دبانا، امت کے گھریلو مسائل، سماجی اور سیاسی مسائل کو دیکھنا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کو ہدایت دینا، اس طرح کے بہت سے امو رہیں جو جماعت میں جانے اور سال لگانے سے کہیں زیادہ اہم ہیں، یہ سب دین کے اہم کام ہیں، انہیں چھوڑ کر غیر اہم کام میں یعنی جماعت میں سال لگانا عالم کے لیے مناسب نہیں۔ تاہم اگر کوئی عالم فارغ البال ہے اپنی خوشی سے جماعت میں ایک سال کے لیے جانا چاہتا ہے تو جاسکتا ہے لیکن عالم کے لیے سال لگانے کو ضروری قرار دینا، جو عالم جماعت میں سال نہ لگائے اسے امام نہ بنانا، مدرس نہ رکھنا، یا مدرسی اور امامت سے انہیں ہٹا دینا، یہ سب غلو کی باتیں ہیں ، دین میں غلو اختیار کرنے سے قرآن پاک میں ممانعت آئی ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی:۶۷۱۶۱
فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔
نَقَلَہُ الْعَبْدُمُنَوَّرُبْنُ مُصْلِح الدِّیْنْ شیخ بھاٹاباری
۲۴/ شوال ۱۴۴۲ھ
۰۵/ جون ، ۲۰۲۱ء

❀ https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/?ref=share ❀

❀ https://t.me/daruleftabhatabari ❀
1.3K views01:58
باز کردن / نظر دهید
2021-06-05 03:49:05 ▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒

کتاب الصلوۃ باب الاذان

سوال:(۱۱۷۳)

عنوان:- قدقامت الصلوٰۃُ پر وصل کرنا بہتر ہے یا وقف کرنا؟

سوال: السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ
قدقامت الصلوٰۃُ پر وصل کرنا بہتر ہے یا وقف کرنا اگر وصل کرینگے اس سے معنی میں تبدیلی تو نہیں ہوگی
جواب عنایت فرمایئں عین نوازش ہوگی۔

✺✺=====••✦✿✦••=====✺✺
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا:
’’قد قامت الصلوۃ‘‘ کو ایک ہی سانس میں وصل کرکے پڑھنے سے معنی میں کوئی تبدیلی تو نہیں آتی ہے البتہ وقف کرکے پڑھنا مسنون ہے یعنی دو سانس میں کہنا مسنون ہے۔ اس وجہ سے قد قامت الصلوۃ میں وقف کرکے دو سانس میں پڑھیں۔
أمر بلال أن یشفع الأذان، وأن یؤتر الإقامۃ إلا الإقامۃ۔ (بخاري شریف، باب الأذان مثنی مثنی، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۸۵، رقم: ۵۹۷، ف: ۶۰۵، مسلم شریف، باب الأمر بشفع الأذان وإیتار الإقامۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۶۴، بیت الأفکار، رقم: ۳۷۸)
اس حدیث شریف میں ’’إلا الإقامۃ‘‘ سے ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ مراد ہے؛ اس لئے کہ اس لفظ کے علاوہ دیگر تمام الفاظ اذان واقامت میں یکساں ہیں، اس کو مستثنیٰ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس لفظ کو دو سانس میں کہا جائے، چنانچہ ’’فیض الباری‘‘ میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے یہی ثابت فرمایا ہے ، نیز علامہ ظفر احمد عثمانیؒ نے ’’اعلاء السنن‘‘ میں بھی اسی کو ثابت فرمایا ہے، عبارت اس طرح ہے:
وأن یؤتر الإقامۃ، أي الإیتار في النفس، والصوت لا في الکلمات، إلا الإقامۃ، فیقول: قد قامت الصلوۃ في نفسین مترسلا؛ لأنہ ہوروح الإقامۃ۔ (إعلاء السنن ۲/ ۹۸، فیض الباري، کتاب الأذان، ترجیع الأذان وإفراد الإقامۃ، کوئٹہ ۲/ ۱۶۰)
(مستفاد از فتاویٰ قاسمیہ جلد۵/ ۴۷۰ اشرفیہ دیوبند، کتاب النوازل جلد۳/ ۳۰۹ جاوید دیوبند، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی:۱۷۱۳۰۱)
فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔
کَتَبَہُ الْعَبْدُمُنَوَّرُبْنُ مُصْلِح الدِّیْنْ شیخ بھاٹاباری
۲۴/ شوال ۱۴۴۲ھ
۰۵/ جون ، ۲۰۲۱ء

❀ https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/?ref=share ❀

❀ https://t.me/daruleftabhatabari ❀
904 views00:49
باز کردن / نظر دهید
2021-06-05 03:48:05 ▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒

کتاب الجنائز

سوال:(۱۱۷۲)

عنوان:- نماز جنازہ میں تین تکبیر پر سلام پھیر دینا:

سوال: اگر امام نمازِ جنازہ میں تین تکبیر کہہ کر سلام پھیر دے تو نماز ہوگی؟

✺✺=====••✦✿✦••=====✺✺
اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا:
نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہنا فرض ہے، اور یہ چار تکبیریں چار رکعات کے قائم مقام ہیں، لہٰذا اگر نمازِ جنازہ میں امام صاحب نے چار کے بجائے تین تکبیریں کہہ کر سلام پھیر دیا تو نمازِ جنازہ نہیں ہوئی، اس نمازِ جنازہ کا اعادہ کیا جائے، اگر دفن کرنے کے بعد یاد آیا کہ تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو قبر پر اس وقت تک جنازہ کی نماز پڑھنا لازم ہے جب تک میت کے سڑنے اور پھٹنے کا غالب گمان نہ ہو، اور میت کے گلنے سڑنے کی مدت حتمی طور پر متعین نہیں ہے، موسم کے گرم و سرد ہونے، میت کی جسامت اور زمین کی ساخت کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں اس کی مدت مختلف ہوسکتی ہے، بعض فقہاء نے اس کی تحدید تین دن سے کی ہے، یعنی تین دن بعد میت گلنا اور سڑنا شروع ہوتی ہے، لہٰذا دفن کے وقت سے تین دن بعد تک بھی اگر قبر پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جاسکی تو پھر اس کے بعد نہیں پڑھنی چاہیے۔
نوٹ: یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ کسی شخص کے بتانے پر امام صاحب کو یا دیگر مقتدیوں کو بھی یاد آجائے کہ واقعی تین تکبیرات کے بعد سلام پھیر دیا گیا تھا، لیکن اگر امام صاحب اور دیگر مقتدیوں کو یقین ہو کہ چار تکبیرات کہنے کے بعد ہی سلام پھیرا گیا تھا اور صرف ایک ہی مقتدی میت کی تدفین کے بعد اصرار کر رہا ہو کہ صرف تین تکبیرات کہی گئی تھیں تو اس کی بات کی وجہ سے وہم میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209):
"(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر".
فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224):
"(وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحساناً (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير، هو الأصح. وظاهره أنه لو شك في تفسخه صلي عليه، لكن في النهر عن محمد لا كأنه تقديماً للمانع.
(قوله: صلي على قبره) أي افتراضاً في الأوليين وجوازاً في الثالثة؛ لأنها لحق الولي أفاده ح. أقول: وليس هذا من استعمال المشترك في معنييه كما وهم؛ لأن حقيقة الصلاة في المسائل الثلاث واحدة، وإنما الاختلاف في الوصف وهو الحكم، فهو كإطلاق الإنسان على ما يشمل الأبيض والأسود فافهم (قوله: هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حراً وبرداً والميت سمناً وهزالاً والأمكنة، بحر، وقيل: يقدر بثلاثة أيام، وقيل: عشرة، وقيل: شهر ط عن الحموي".
مستفاد از فتاویٰ علامہ یوسف بنوری ٹاؤن کراچی، رقم الفتوی:۱۴۴۰۱۰۲۰۰۸۷۳,، فتاویٰ قاسمیہ جلد ۱۰/ ۵۷ اشرفیہ دیوبند، فتاویٰ رحیمیہ جلد ۷ / ۳۶ دارالاشاعت کراچی،
فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔
نَقَلَہُ الْعَبْدُمُنَوَّرُبْنُ مُصْلِح الدِّیْنْ شیخ بھاٹاباری
۲۳/ شوال ۱۴۴۲ھ
۰۴/ جون ، ۲۰۲۱ء

❀ https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/?ref=share ❀

❀ https://t.me/daruleftabhatabari ❀
582 views00:48
باز کردن / نظر دهید
2021-06-05 03:47:08 ▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒

کتاب الصوم

سوال:(۱۱۷۱)

عنوان:- ضعیف آدمی جو روز نہ رکھ سکتا ہو وہ کیا کرے؟

سوال: ضعیف آدمی جو روز نہ رکھ سکتا ہو وہ کیا کرے؟

المستفتی: حافظ دانش انصاری، پورنیہ، بہار۔
✺✺=====••✦✿✦••=====✺✺
اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا:
اگر اس قدر ضعف اور کمزوری ہو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا، نہ فی الحال نہ آئندہ ، تو ایسا شخص روزوں کے بدلے فدیہ دے سکتا ہے، ایک روزہ کے فدیہ کی مقدار ایک صدقة الفطر یعنی نصف صاع (تقریباً پونے دو کلو) گیہوں یا اس کی قیمت ہے، اسی حساب سے تیس روزوں کا فدیہ نکالا جائے گا۔
عن عطاء سمع ابن عباس ، یقرأ وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین، قال ابن عباس : لیست بمنسوخۃ ہوالشیخ الکبیر ، والمرأۃ الکبیرۃ لا یستطیعان أن یصوما، فیطعمان مکان کل یوم مسکینا۔ (صحیح البخاری ، التفسیر، باب ماجاء فی أیام معدودات… ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۶۴۷، رقم: ۴۳۲۰، ف: ۴۵۰۵)
وللشیخ الفانی العاجز عن الصوم الفطر ویفدی وجوباً الخ۔ (الدر المختار ، کتاب الصوم ، باب مایفسد الصوم ومالا یفسد ہ زکریا دیوبند۳/۴۱۰، کراچی
(مستفاد از فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، رقم الفتوی:۴۷۳۷۷ ، فتاویٰ قاسمیہ جلد۱۱/ ۵۲۲ اشرفیہ دیوبند، فتاویٰ رحیمیہ جلد ۷/ ۲۷۱ دارالاشاعت کراچی،
فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔
کَتَبَہُ الْعَبْدُمُنَوَّرُبْنُ مُصْلِح الدِّیْنْ شیخ بھاٹاباری
۲۳/ شوال ۱۴۴۲ھ
۴/ جون ، ۲۰۲۱ء

❀ https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/?ref=share ❀

❀ https://t.me/daruleftabhatabari ❀
449 views00:47
باز کردن / نظر دهید
2021-06-05 03:46:12 ▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒

کتاب الزکوٰۃ

سوال:(۱۱۷۰)

عنوان:- مالِ تجارت کی زکوۃ نکالنے کا طریقہ:

سوال: کاروباری میں مالِ تجارت کی زکوۃ نکالنے کا طریقہ کیا ہے حضرت؟

المستفتی: حافظ دانش انصاری، پورنیہ بست پور بہار۔
✺✺=====••✦✿✦••=====✺✺
اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا:
مالِ تجارت کی زکوۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تاریخ میں زکوۃ کا سال پورا ہوتا ہے، اس تاریخ میں مال کا جتنا اسٹاک (ذخیرہ) موجود ہے، اس کی قیمت اسی تاریخ کے بازار کے نرخ (قیمت) کے لحاظ سے لگائے، قیمتِ خرید کے اعتبار سے نہیں۔
في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ :قال صاحب البدائع علاء الدین أبو بکر الکاساني رحمہ اللہ تعالی : وسواء کان مال التجارۃ عروضًا أو عقارًا أو شیئًا مما یکال أو یوزن ، لأن الوجوب في أموال التجارۃ تعلق بالمعنی وہو المالیۃ والقیمۃ ، وہذہ الأموال کلہا في ہذا المعنی جنس واحد ۔ (۲/۴۱۶ ، فصل في نصاب أموال التجارۃ)
و في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : قال الحصکفي رحمہ اللہ تعالی : وتعتبر القیمۃ یوم الوجوب، وقالا : یوم الأداء ؛ وفي السوائم یوم الأداء إجماعًا وہو الأصح ، ویقوّم في البلد الذي المال فیہ ، ولو في مفازۃ ففي أقرب الأمصار إلیہ ۔ فتح ۔ (در مختار) ۔
(۳ /۲۱۱ ، باب زکاۃ الغنم ، قبیل مطلب : محمد إمام في اللغۃ واجب التقلید فیہا من أقران سیبویہ ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۸۰ ، الباب الثالث في زکاۃ الذہب والفضۃ والعروض، الفصل الثاني في العروض) (فتاویٰ عثمانی:۲/۵۲، احسن الفتاویٰ: ۴/۳۰۹)
(مستفاد از المسائل المہمۃ فیماابتلت بہ العامة جلد۸/ ۱۵۵ اکل کوا مہاراشٹر، فتاویٰ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی، ۱۴۴۲۰۸۲۰۰۵۱۶)
فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔
کَتَبَہُ الْعَبْدُمُنَوَّرُبْنُ مُصْلح الدین شیخ بھاٹاباری
۲۳/شوال۱۴۴۲ھ
۴/ جون ، ۲۰۲۱ء

❀ https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/?ref=share ❀

❀ https://t.me/daruleftabhatabari ❀
497 views00:46
باز کردن / نظر دهید
2021-06-04 09:59:57 ▒▓█ دارالافتاء بھاٹاباری گروپ █▓▒

کتاب الایمان و العقائد باب التبلیغ و الدعوۃ

سوال:(۱۱۶۹)

عنوان:- تبلیغی جماعت میں جانا حرام ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تبلیغی جماعت میں نکلنا کیسا ہے جائز ہے یا حرام؟ اگر جائز ہے تو فرض ہے یا واجب؟قرآن وحدیث کی رو سے مدلل جواب عنایت فرمائیں۔؟ تاکہ لوگوں کا خلجان دور ہو جائے۔ فقط والسلام لاتشر اسمی

✺✺=====••✦✿✦••=====✺✺
اَلْجَوَابُ حَامِدًاوَّمُصَلِّیًاوَّمُسَلِّمًا:
تبلیغی جماعت میں جانا حرام تو نہیں ہے اور نہ ہی فرض یا واجب ہے البتہ جو لوگ حرام کہتے ہیں ان سے دلیل طلب کی جائے کہ وہ حرام کیوں کہتے ہیں؟ اللہ ایسے لوگوں کو صحیح سمجھ اور عقل سلیم عطا کرے۔ ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ایسی باتوں اور حرکتوں سے لازمی طور پر توبہ کریں۔ یہ بات واضح رہے کہ ہر مسلمان پر اپنی عبادت کا صحیح کرنا لازم ہے اور ہر ایک اصلاح کا محتاج ہے، نیز علمِ دین کا بقدر ضرورت سیکھنا لازم ہے، جس کے ذریعہ سے اللہ کی عبادت صحیح طور پر کی جاسکے، حلال و حرام کی پہچان کی جا سکے، جماعت میں جانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کم پڑھے لکھے مسلمان آسانی کے ساتھ اپنی عبادت صحیح کرنے کا طریقہ سیکھ لیں اور ساتھ ساتھ اس کی مشق کریں اور اس میں صرف دین کی باتیں سیکھنے سکھانے کا مشغلہ رہتا ہے۔ اور جماعت میں جاکر کم وبیش وقت لگا کر عبادات کو درست کرنا اور کچھ دین کی باتیں سیکھنا بہت آسان ہے؛ اس لئے جس کو بھی موقع ملے جماعت میں جاکر عبادات کو درست کر لینا اور دین کی باتیں سیکھ لینا چاہئے۔ اور یہ حکم قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔
من خرج في طلب العلم فہو في سبیل اللہ حتی یرجع۔ (ترمذي، باب فضل طلب العلم، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۹۳، دارالسلام، رقم: ۲۶۴۷، مسند البزار، مکتبۃ العلوم والحکم ۱۳/ ۱۳۰، رقم: ۶۵۲۰)
من سلک طریقا یلتمس فیہ علما سہل اللہ لہ بہ طریقا إلی الجنۃ۔ (سنن ترمذي باب فضل طلب العلم، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۹۳، دارالسلام رقم: ۲۶۴۶، صحیح مسلم، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۳۴۵، بیت الأفکار رقم: ۲۶۹۹، مسند الدارمي، دارالمغني ۱/ ۳۶۱، رقم: ۳۵۴، مشکوۃ شریف/ ۳۲)
واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر مایحتاج إلیہ، وفرض کفایۃ، وہو مازاد علیہ لنفع غیر۔ (الدر المختار)
وفي رد المحتار: قال العلامۃ في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالیٰ ومعاشرۃ عبادہ، وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلوۃ والصوم الخ … وفي تبیین المحارم : لاشک في فرضیۃ علم الفرائض الخمس، وعلم الإخلاص۔ (مقدمۃ ردالمحتار ۱؍۴۲ کراچی، کفایت المفتی ۲؍۷)
مستفاد از فتاویٰ قاسمیہ جلد ۴/ ۳۴۹ اشرفیہ دیوبند، کتاب النوازل جلد ۲/ ۳۶۰ جاوید دیوبند
فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم ۔
کَتَبَہُ الْعَبْدُمُنَوَّرُبْنُ مُصْلِح الدِّیْنْ شیخ بھاٹاباری
۲۳/ شوال۱۴۴۲ھ
۴/ جون ، ۲۰۲۱ء

❀ https://www.facebook.com/groups/Daruleftabhatabari/?ref=share ❀

❀ https://t.me/daruleftabhatabari ❀
495 views06:59
باز کردن / نظر دهید