Get Mystery Box with random crypto!

* ((تعارف سورة المنافقون/ پ: ٢٨/س: ٦٣)) * یہ سورت | نفحات القران

* ((تعارف سورة المنافقون/ پ: ٢٨/س: ٦٣)) *

یہ سورت ایک خاص واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو المصطلق عرب کا ایک قبیلہ تھا، جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں حملہ کرنے کے لئے لشکر جمع کر رہا ہے، آپ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ خود وہاں تشریف لے گئے، ان سے جنگ ہوئی اور آخر کار ان لوگوں نے شکست کھائی اور بعد میں مسلمان بھی ہوئے، جنگ کے بعد چند دن آپ نے وہیں ایک چشمے کے قریب پڑاؤ ڈالے رکھا جس کا نام مریسیع تھا، اسی قیام کے دوران ایک مہاجر اور ایک انصاری کے در میان پانی ہی کے کسی معاملے پر جھگڑا ہو گیا، جھگڑے میں نوبت ہاتھا پائی کی گئی، اور ہوتے ہوتے مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا اور انصاری نے انصار کو، یہاں تک کہ اندیشہ ہو گیا کہ کہیں مہاجرین اور انصار کے در میان لڑائی نہ چھوڑ جائے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ مہاجر اور انصار کے نام پر لڑائی کرنا وہ جاہلانہ عصبیت ہے جس سے اسلام نے نجات دی ہے، آپ نے فرمایا کہ یہ عصبیت کے بدبو دار نعرے ہیں جو مسلمانوں کو چھوڑنے ہوں گے، ہاں مظلوم جو کوئی بھی ہو اس کی مدد کرنی چاہیے، اور ظالم جو کوئی ہو اسے ظلم سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد جھگڑا فرو ہو گیا، اور جن حضرات میں ہاتھا پائی ہوئی تھی ان کے درمیان معافی تلافی ہو گئی، یہ جھگڑا تو ختم ہوگیا، لیکن مسلمانوں کے لشکر میں کچھ منافق لوگ بھی تھے جو مال غنیمت میں حصہ دار بنے کے لئے شامل ہو گئے تھے، ان کے سردار عبد اللہ بن ابی کو جب اس جھگڑے کا علم ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم نے مہاجروں کو اپنے شہر میں پناہ دے کر اپنے سر پر چڑھا لیا ہے، یہاں تک کہ اب وہ مدینے کے اصل باشندوں پر ہاتھ اٹھانے لگے ہیں، یہ صورت حال قابل برداشت نہیں ہے، پھر اس نے یہ بھی کہا کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو جو عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا، اس کا واضح اشارہ اس طرف تھا کہ مدینے کے اصل باشندے مہاجروں کو نکال باہر کریں گے، اس موقع پر ایک مخلص انصاری صحابی حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) بھی موجود تھے، انہوں نے اس بات کو برا سمجھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ عبد اللہ ابن الی نے ایسا کہا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبد اللہ بن انبی سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا کہ میں نے یہ بات نہیں کہی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درگزر فرمایا کہ شاید حضرت زید بن ارقم کو غلط فہمی ہوئی ہو، حضرت زید بن ارقم کو یہ رنج تھا کہ عبداللہ ابن ابي نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کو جھوٹا بنایا، اس کے بعد آپ اپنے صحابہ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوگئے ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے کہ یہ سورت نازل ہوگئی جس نے حضرت زید بن ارقم کی تصدیق کی اور منافقین کی حقیقت واضح فرمائی_

《آسان ترجمۂ قرآن ص ١٧٣٨ ، مؤلف :شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ،مکتبہ معارف القرآن کراچی》

انتخاب :عصمت خان قاسمی پاتورڈوی