2021-11-30 05:25:55
*ایک الہمامی و نورانی اور قیمتی بیان*
(بیان کا مختصر خلاصہ۔از:راشدحسین)
حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے 21 نومبر بروز اتوار کی اصلاحی مجالس میں قرآنی دعا:
*{رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ } [التحريم: 8]* کی تشریح فرمائی۔
حضرت والا نے اس دعا کی تشریح اس آیت کے شروع سے فرمائی اور
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا*
اے ایمان والو ! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو
کے ذیل میں فرمایا کہ یہ خطاب صرف گناہ گاروں سے نہیں بلکہ اس میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا جارہاہے، کہ اللہ تعالیٰ کے حضور خالص توبہ کرو، اس سے پتہ چلا کہ ہر مومن توبہ کا محتاج ہے۔
*توبہ کا معنی:* توبہ کے معنی رجوع کے ہوتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ سے رجوع کرو۔
*توبہ کی ضرورت:*
توبہ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہر انسان سے جانے یا انجانے میں کوئی نہ کوئی گناہ سرزد ہوہی جاتا ہے،اسی لئے نبی کریم ﷺ نے یہ دعا سکھائی کہ ’’ میرے وہ گناہ بھی معاف کر دیجیے جو آپ جانتے ہیں اور میں نہیں جانتا۔‘‘اسی لئے بزرگ فرماتے ہیں رات کو سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنے سارے دن کی خطاؤں سے اور سارے گناہوں سے توبہ کر کے سویا کرو۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ ہم نے سارا دن کوئی گناہ نہ کیا ہو لیکن کیا کوئی ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمتِ شان کے مطابق ہو؟ کیا ہمارے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے قابل تھے؟ دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کی عظمتِ شان کے سامنے نبیِ کریم صرف خود کو گناہ گار بندہ فرما رہے ہیں، انسان کو اللہ تعالیٰ کی جتنی معرفت بڑھتی چلی جاتی ہے، اتنا ہی انسان خود کو ناقص در ناقص در ناقص در ناقص سمجھنے لگتا ہے۔یہاں حضرت والا نے نبی کریم ﷺ کے خود کو گناہ گار بندہ کہنے کی علمی توجیہہ بھی بیان فرمائی۔
*توبہ نصوح:* خالص توبہ ملاوٹ سے پاک توبہ، اس میں کوئی نقاق نہ ہو،ریاکاری نہ ہو۔اس میں عزم بھی ہو۔
*توبہ کی چار شرائط:* پچھلے کیے پر ندامت، فوری چھوڑ دینا اور آئندہ کیلئے نہ کرنے کا عزم چوتھی چیز یہ جو حق ادا سکتا ہو وہ حق ادا کرنا جیسے قضا نمازیں پڑھنا یا کسی بندے کا حق ادا کرنا۔
*عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ*
کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے۔
حضرت والا نے اس جملے کی بڑی ہی خوبصورت تشریح فرمائی اور ’’عسی‘‘ کے لفظ کی مناسبت سے اسے *’’شاہانہ انداز‘‘* قرار دیا۔ گویا وعدہ بھی فرمادیا لیکن اس انداز سے کوئی اسے اپنا حق نہ سمجھے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے فرمائیں گے۔
*أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ*
تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے۔
یہاں’’ کفارہ‘‘ کی لفظ کی تشریح فرمائی اور گناہ نامۂ اعمال سے بھی مٹادئیے جائیں گے۔ یہاں پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث: ’’حدیث النجوۃ‘‘ بیان فرمائی، جو اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت کی بڑی علامت اور گناہ گار بندوں کیلئے بڑی ہی امید افزا ہے۔
*وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ*
، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
فرمایا کہ وہاں کی نعمتیں تو کسی کے واہمہ اور حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتیں، تاہم اللہ تعالیٰ بعض اوقات ہمیں سمجھانے کیلئے ایسے انداز میں بیان فرماد یتے ہیں جس سے سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
*نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ*
یہاں پر حضرت والا مدظلہم نے *علمی انداز میں آخرت کے واقعات کی ترتیب بیان فرمائی اور اس میں کفار، منافقین اور مسلمانوں کے درجات پر بات کی۔ اور یہیں سے اصل بات شروع ہورہی ہے جسے الہامی و نورانی گفتگو کہنا چاہیے۔*
*یہاں کے بعد آخرت کے نور کی جو تشریح کی گئی جو لکھنے سے قاصر ہوں، وہ سننے سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ کئی ساتھیوں نے کہا کہ یہ عجیب و غریب تقریر پہلی بار سنی اور آنکھیں کھل گئیں۔حضرت والا نے نور و ظلمت کی بصیرت افروز تشریح کرتے ہوئے دنیا میں نور کی ضرورت اور آخرت میں نور تقسیم کرنے کی وجہ بیان فرمائی اور صبح نماز کیلئے جاتے وقت نور کی دعا کی بھی تشریح فرمائی۔....اتمام نور کا مطلب، نور پیدا کرنے والے اعمال،آیتِ نور کی تشریح اور غرض اس مختصر وقت میں کیا کیا علمی نکات اور حکمت و معرفت کے خزانے بیان فرمائے...بیان سے باہر ہے۔*
اللہ تعالیٰ حضرت والا مدظلہم کا سایہ ٔ عاطفت صحت و عافیت کے ساتھ امتِ مسلمہ پر تادیر قائم و دائم فرمائے اور ہمیں حضرت والا کے فیوض و برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
*بسلسلہ معارفِ عثمانی*
22 نومبر 2021
اس لنک سماعت کر سکتے ہیں:
245 views02:25