Get Mystery Box with random crypto!

صحبت صالح کا اثر : ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ح | مفتی محمد تقی عثمانی صاحب

صحبت صالح کا اثر :
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کوئی اللہ والا ہم پر ایسی نظر ڈال دے اور اپنے سینے سے لگالے۔ اور سینے سے اپنے انوارات منتقل کر دے اور اس کے نتیجے میں گناہ کا داعیہ ہی دل سے مٹ جاۓ ۔ یاد رکھو! ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔ جو شخص اس خیال میں ہے،وہ دھو کے میں ہے۔ اگر ایسا ہوجا تا تو پھر دنیا میں کوئی کافر باقی نہ رہتا۔ اس لئے کہ پھر تصرفات کے ذریعہ ساری دنیا مسلمان ہو جاتی ۔

حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ کی خدمت میں ایک مرتبہ ایک صاحب حاضر ہوۓ اور کہا کہ حضرت! کچھ نصیحت فرمائیے ۔ حضرت نے نصیحت فرمادی ۔ پھر وہ صاحب رخصت ہوتے ہوئے کہنے لگے کہ حضرت! آپ مجھے اپنے سینے میں سے کچھ عطا فرمادیجئے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ سینے میں سے کوئی نور نکل کر ہمارے سینے میں داخل ہو جائے ، اس کے نتیجے میں بیڑہ پار ہوجائے اور گناہوں کی خواہش ختم ہو جائے ۔ حضرت نے جواب میں فرمایا کہ سینے میں سے کیا دوں ۔ میرے سینے میں تو بغلم ہے، چاہئے تو لے لو۔ بہر حال! یہ جو خیال ہے کہ کسی بزرگ کی نگاہ پڑ جائے گی یا سینے میں سے کچھ مل جاۓ گا تو سب رذائل دور ہو جائیں گے ۔ یہ خیال لغو ہے۔

ایں خیال است و محال است و جنوں

البتہ اللہ تعالی نے بزرگوں کی صحبت میں تاثیر ضرور رکھی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کی فکر اور سوچ کا رخ بدل جاتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں انسان صحیح راستے پر چل پڑتا ہے۔ مگر کام خود ہی کرنا ہوگا اور اپنے اختیار سے کرنا ہوگا ۔ بہر حال! گناہوں کے وساوس اور ارادوں کا بالکل خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ چاہے کسی بڑے سے بڑے مقام تک پہنچ جاۓ ۔ البتہ کمزور ضرور پڑ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص سالہا سال تک کسی بزرگ کی صحبت میں رہا اور جو چیز بزرگوں کی صحبت میں حاصل کی جاتی ہے ، وہ حاصل بھی ہوگئی اور تکمیل بھی ہوگئی ، دل میں خوف ،خشیت اور تقوی پیدا ہوگیا ، نسبت مع اللہ اور تعلق مع اللہ بھی حاصل ہو گیا ، ان سب چیزوں کے حاصل ہونے کے باوجود انسان کو ہر ہر قدم پر اپنی نگرانی رکھنی پڑتی ہے ۔ یہی نہیں ہے کہ اب شیخ بن گئے اور شیخ سے اجازت حاصل ہوگئی تو اب اپنے آپ سے ، اپنے نفس سے غافل ہوگئے ، اور یہ سوچا کہ اب تو ہم پہنچ گئے ۔ اس مقام پر پہنچ گئے کہ اب تو نفس اور شیطان بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اس لئے کہ شیخ کی صحبت کی برکت کی وجہ سے اتنا ضرور ہوا کہ گناہ کا داعیہ کمزور پڑ گیا ۔ لیکن نفس کی نگرانی پھر بھی ہر وقت رکھنی پڑتی ہے ۔اس لئے کہ کسی وقت بھی داعیہ دوبارہ زندہ ہو کر انسان کو پریشان کر سکتا ہے ۔اس لئے فرمایا کہ :

اندریں رہ می تراش و می خراش
تادم آخر دمے فارغ مباش

یعنی اس راہ میں تراش و خراش ہمیشہ کی ہے ۔ حتٰی کہ آخری سانس آنے تک کسی وقت بھی غافل ہوکر مت بیٹھنا ۔ اس لئے کہ یہ نفس کسی وقت بھی انسان کو دھوکہ دے سکتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کتاب : جہنم کیا ہے؟
(صفحہ نمبر 177,178 )
ترتیب : مولانا محمد ندیم قاسمی
ناقل : عبدالرحمن
بسلسلہ: کتب سے اقتباسات ٹیلی گرام چینل
https://t.me/Eqtebaskb
=======
https://t.me/MuftiTaqiUsmaniSahab