Get Mystery Box with random crypto!

* روز قیامت آنے سے پہلے پہلے اللہ کے لئے خرچ کرلو : * ــــــــ | نفحات القران

* روز قیامت آنے سے پہلے پہلے اللہ کے لئے خرچ کرلو : *
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِـىَ يَوْمٌ لَّا بَيْـعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّـةٌ وَّّلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُوْنَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ○* (البقرۃ:۲-۲۵۴)

*ترجمہ :* "اے ایمان والو! اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس سے پہلے کہ وہ دِن آئے کہ جس میں نہ بیع ہوگی نہ دوستی اور نہ سفارش، اور جو کافر ہیں وہ ظلم کرنے والے ہیں ـ

*تفسیر :* اس آیتِ شریفہ میں مال خرچ کرنے کا حکم فرمایا ہے اور لفظ *"رَزَقْنَاكُمْ"* میں یہ بتادیا کہ یہ مال ہمارا دیا ہوا ہے جس نے مال دیا اس کو پورا پورا حق ہے کہ مال خرچ کرنے کا حکم فرمائے، نیک کاموں میں فرائض، واجبات کے مصارف بھی ہیں اور مستحب و نفلی صدقات بھی، اور جس طرح بدنی عبادات ( نماز روزہ) آخرت کے عذاب سے بچانے کا ذریعہ ہیں، اسی طرح مالی عبادات اس کا سبب ہیں ـ

صحیح بخاری (جلد ❶ص۱۹۱) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا *"اِتَّقُوْا النَّارَ وَلَو بِشَقَّةِ تَمْرَةٍ"* ( دوزخ سے بچو اگرچہ آدھی ہی کھجور کا صدقہ کردو) قیامت کا دن بہت سخت ہوگا، نفسا نفسی کا عالم ہوگا،ایمان اور اعمالِ صالحہ ہی کام دیں گے، اس دن نہ بیع ہوگی،نہ دوستی نہ سفارش، لٰہذا اس دن نجات پانے اور عذاب سے بچنے کے لئے اعمالِ صالحہ کرتے رہنا چاہئے ـ اعمال صالحہ میں اللہ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنا بھی شامل ہے ـ

یہ جو فرمایا کہ *" اس دن بیع نہیں ہوگی"* اِس کے بارے میں حضرات مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے فدیہ یعنی جان کا بدلہ مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن کوئی جان کسی جان کے بدلہ عذاب بھگتنے کے لئے تیار نہیں ہوگی جیسا سورۃ البقرہ کے چھٹے رکوع میں فرمایا ـ *"لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا"* اور فدیہ کی صورت میں کیونکہ مبادلہ ہوتا ہے اس لئے اسے بیع سے تعبیر فرمایا ـ اور یہ جو فرمایا *"وَلَا خُلَّـةٌ"* اس میں دوستی کی نفی فرمائی مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دِن دنیا کی کوئی دوستی کسی کو کام نہ دے گی،یہاں جو محبتیں ہیں اور دوستی کے مظاہرے ہیں یہ وہاں بلکل نہ رہیں گے بلکہ دوست دشمن ہوجائیں گے،کوئی دوست کسی کی مدد نہ کرسکے گا ـ اہلِ کفر اور اہلِ فسق کے بارے میں ہے، متقی حضرات کی محبتیں باقی رہیں گی جیسا کہ سورۃ الزخرف میں ارشاد فرمایا: *اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُـمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ○* اس دن دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے ان لوگوں کے جو صفت تقویٰ سے متصف تھے ـ ( الزخرف: ٤٣ ـ ٦٧)

*"وَلَا شَفَاعَةٌ "* کہ ظالموں کے لئے نہ کوئی دوست ہوگا نہ سفارش کرنے والا ہوگا، جس کی بات مانی جائے ـ اہلِ ایمان کے لئے جو شفاعت ہوگی اس میں اس کی نفی نہیں ہے جس کو سفارش کرنے کی اجازت ہوگی وہی سفارش کرسکے گا اور جس کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی اس کے لئے سفارش ہوسکے گی ـ آیت کے ختم پر فرمایا : *"وَالْكَافِرُوْنَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ "* ( کفر کرنے والے ظالم ہی ہیں) انہوں نے معبودِ برحق سے منہ موڑا اور حق و مالک سے منحرف ہوگئے، ایسے لوگوں کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
((اے ایمان والو! ص ۵۰،۵١ مؤلف : مفتی محمد عاشق الٰہی بلند شہریؒ))

انتخاب :عصمت خان قاسمی پاتورڈوی