Get Mystery Box with random crypto!

کورونا وائرس ۔۔۔ لگتا ہے ڈر مگر گھبرانا نہیں ایک شخص سے دوسرے | طبی معلومات

کورونا وائرس ۔۔۔ لگتا ہے ڈر مگر گھبرانا نہیں

ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہونے والی بیماری کو متعدی بیماری (Infectious Disease) کہتے ہیں۔ کوئی متعدی بیماری تیزی سے آبادی کے دیگر افراد میں پھیلنے لگے تو اسے وبا (Epidemic) کہا جاتا ہے۔ جب وبا کئی ملکوں تک پھیل جائے تو وہ عالمی وبا (Pandemic) کہلاتی ہے۔ اِس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کی عالمی وبا کا چرچا ہے۔ ہر شخص اندیشے اور خوف میں مبتلا ہے۔ اُسے خوف ہے کہ کہیں یہ بیماری اُس کے شہر اور آخرکار اُس کے گھر تک نہ پہنچ جائے۔ جب کوئی وبا پھیلتی ہے تو اُس کے متعلق ڈرانے والی بے بنیاد باتیں اُس سے زیادہ تیزی سے عام ہونے لگتی ہیں۔ افواہوں کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اِس وقت دنیا کے طول و عرض سے تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔ لیکن معلومات اور بیداری کا فقدان ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر ذمے دار، خوف و ہراس پھیلانے والے پیغامات کا دَور دَورہ ہے۔ غلط معلومات کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ انسان خطرے سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر سکتا۔ اِس لیے لازم ہے کہ ایسے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے درست معلومات موجود ہوں، جو سائنسی حقایق پر مبنی ہوں۔ کورونا وائرس چین کے شہر یوہان سے سفر کرتے ہوئے اِس وقت دنیا کے ساتوں بر اعظموں میں اپنے قدم جما چکا ہے۔ یہ وائرس در اصل کورونا وائرس کی پانچویں جدید ترین قسم ہے۔ اِسی لیے اِسے Novel Coronavirus یا COVID-19 نام دیا گیا ہے۔ تحریر لکھے جانے (10مارچ) تک دنیا کے ایک سو چار ممالک کے تقریباً ایک لاکھ چودہ ہزار افراد اِس وقت کورونا وائرس بیماری میں مبتلا ہیں۔ تقریباً چار ہزار افراد اِس مرض کا شکار ہوکر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہ اعداد وشمار خوف ناک ہیں۔ لیکن اِن کے کئی پہلووں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اِس قدر خوف و ہراس کیوں؟
یہ وائرس مہلک ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت مساوات پسند بھی ہے۔ یہ امیر غریب، راجا اور پرجا، ذات برادری یا مذہب میں امتیاز نہیں کرتا۔ جو کوئی احتیاط برتے گا وہ محفوظ رہے گا۔ کورونا وائرس کی پریشان کن صفت یہ ہے کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے۔ البتہ یہ اُس قدر مہلک نہیں ہے جس قدر اِس سے پہلے پیدا ہونے والی بہت سی عالمی وبائیں مثلاً SARS اور MERS وغیرہ تھیں۔ کورونا میں موت کی شرح SARS سے پانچ گنا کم ہے۔ کورونا وائرس کا پہلا چینی مریض مکمل طور پر شفایاب ہو چکا ہے۔ ایک ضعیف چینی خاتون جن کی عمر چھیانوے برس ہے کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد تندرست ہو چکی ہیں۔ عالمی قدری زنجیر (Global Value Chain) کے ساتھ بھارت کی نسبتاً کم وابستگی کی وجہ سے یہاں کورونا کے پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہی ہے۔ 5 مارچ کے بیان میں عالمی ادارہئ صحت WHO نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کی عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں پائے گئے معاملات صرف بیرونی ممالک سے سفر کرکے آنے والوں کے ہیں۔ اب تک بھارت میں کورونا کے صرف سینتالیس مریض پائے گئے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ زیادہ تر شفایاب ہو چکے ہیں، اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ دنیا کے متاثرہ ایک لاکھ چودہ ہزار افراد میں سے نوے فی صد صرف چین میں ہیں۔ یعنی دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے چین کے باہر یہ مرض صرف دس ہزار افراد کو لاحق ہے۔اِس وقت دنیا بھر میں چونسٹھ ہزار افراد مکمل طور پر اچھے ہو چکے ہیں۔ WHO کے 10 مارچ کے بیان کے مطابق خود چین میں متاثرہ افراد میں سے ستّر فی صد شفایاب ہو چکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وائرس کا شکار ہونے والے تقریباً ستانوے سے نناوے فی صد افراد اچھے ہوجاتے ہیں۔ اکیاسی فی صد میں مرض بہت ہلکی علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ چودہ فی صد میں قدرے زیادہ، لیکن خطرے سے باہر۔دوفی صد میں شدید لیکن وہ بھی شفاپا جاتے ہیں۔ بہرحال ایک سے تین فی صد افراد کی زندگی کو خطرہ لاحِق ہوتا ہے۔ اور یہی امر صحت کے عالمی اداروں اور حکومتوں کی فکر کا باعث ہے۔

علاج ہمارے اندر:
کورونا کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اونچی تپش اور ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ امریکی اور چند ہندوستانی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ ایام میں پارہ چڑھنے کے ساتھ ساتھ کورونا کے قہر کے کچھ اُترنے کا امکان بھی ہے۔ البتہ WHO نے اِس دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے۔یہ جان کر ہر شخص پریشان ہے کہ کورونا وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی جان لیں کہ ہم دوسرے بھی کئی وائرس کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اورہمارے ہی جسم کے اندر اُن کا توڑ بھی موجود ہوتا ہے۔ اور یہ ہے ہمارے جسم کا مدافعتی نظام (Immune System) ہے، جو چند روز کے اندر جسم سے وائرس کا نام و نشان ختم کر دیتا ہے اور اِس کے نتیجے میں ہمارے جسم میں عام طور سے مستقل طور پر اُس وائرس کے خلاف مزاحمتی قوت تیار ہوجاتی ہے۔ کئی افراد علاج کے بغیر خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔خطرہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب جسم ایسا کرنے میں ناکام ہوجائے۔ کورونا وائرس کا معاملہ بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا اِس قدر