Get Mystery Box with random crypto!

بیوی کی پرایویسی: حضرت مولانا مفتی طارق مسعود صاحب مدظلہ ای | بچوں کے لیے کہانیاں

بیوی کی پرایویسی: حضرت مولانا مفتی طارق مسعود صاحب مدظلہ

ایک بات خوب سمجھ لو! کہ شرعی اعتبار سے نہ بیوی اپنے کسی رشتہ دار کو شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں رکھ سکتی ہے۔ اور نہ شوہر اپنے کسی رشتہ دار کو بیوی کی اجازت کے بغیر اسکے گھر میں رکھ سکتا ہے۔
کسی بھی اعتبار سے آپکی بیوی کی پرائویسی میں دخل اندازی ہورہی ہے تو شوہر بیوی کی اجازت کے بغیر کسی بھی رشتہ دار کو گھر میں نہیں رکھ سکتے۔ والدین ساتھ رہیں گے لیکن والدین اُس صورت میں ساتھ رہیں گے کہ آپکی بیوی کا مکمل الگ ایک کمرہ ہو اور اسکے لیے باقاعدہ ایک ایسا انتظام ہو کہ اسکی پرایئویسی میں آپکے والدین بھی ذبردستی کی مداخلت نہ کرسکیں۔

والدین بھی بہو کے ساتھ اس صورت میں رہ سکتے ہیں کہ اگر والدین اپنی بہو کو بلاوجہ ٹارچر نہ کرتے ہوں۔ اگر شوہر کو یہ اندازہ ہوگیا کہ میں نے بیوی کو گھر میں الگ کمرہ لیکر دیا ہوا ہے اسکے باوجود میری اماں بار بار میری بیوی کو ٹینشن دیتی ہے تو پھر شوہر پر لازم ہے کہ آپ اپنی بیوی کو اپنی اماں سے الگ رکھیں۔

کیوں کہ عورت جب شادی کرکے آئ ہے تو وہ ٹینشن لینے کے لیے نہیں آئ وہ لائف کو انجواۓ کرنے کے لیے آئ ہے۔ اللہ نے نکاح خوشیوں کے لیے رکھا ہے۔ ٹینشنوں کے لیۓ اللہ نے نکاح نہیں رکھا۔

مسئلہ درحقیقت یہی ہے کہ بیوی کو الگ گھر میں رکھا جاۓ اور والدین کو الگ گھر میں رکھا جاۓ۔ جوائنٹ فیملی کے جو فائدے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ اکٹھے رہنے میں جو برکتیں ہوتی ہیں وہ الگ رہنے سے نہیں ملتیں۔ لیکن یاد رکھو کہ اکٹھے رہنے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ دل کو بڑا کرنا پڑتا ہے برداشت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ برداشت آج کل مارکیٹ میں شارٹ چل رہی ہے۔

اس لیے ہم لوگوں کو آج کل یہی مشورہ دیتے ہیں کہ جب تم شادی کرو تو بیوی کو الگ گھر میں لیکر آؤ۔ اماں ابا کے گھر میں مت لیکر آؤ۔ میں ہمیشہ لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ شادی سے پہلے الگ گھر کا انتظام کرو پھر شادی کرو۔

پھر کبھی اماں ابا کو بہو سے ملوانے لے آؤ اور کبھی بہو کو اماں ابا سے ملوانے لے جاؤ اور اپنی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھواؤ۔

والدین غصہ کرتے ہیں کہ ہم نے پال پوس کر بچے کو جوان کیا اور ہم سے ہمارا بیٹا الگ ہوگیا۔ ارے بھئ وہ قیامت تک کے لیے الگ نہیں ہورہا وہ روزانہ آۓ گا اور آپ سے ملاقات کرے گا آپکی خدمت بھی کرے گا۔ اگر سب اکٹھے رہتے تو ہم سب وہیں رہتے جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا رہا کرتے تھے۔ اب وہ تو پتہ نہیں دنیا میں کہاں آۓ تھے۔ لیکن پوری دنیا اللہ نے بھردی۔ اسی لیے تو بھری ہے کہ شادی کر کرکے الگ ہوتے گۓ۔ اگر انہی کے گھر میں رہ رہے ہوتے تو آج کتنا بڑا بنگلہ ہوتا حضرت آدم علیہ السلام کا۔

تو اس لیے میرے بھائ افضل یہی ہے بہتر یہی ہے کہ اگر فساد سے بچنا چاہتے ہو تو الگ گھر کا انتظام پہلے کرو اور شادی بعد میں کرو۔ اس میں اگر اماں ابا غیرت کے طعنے دیتے ہیں تو اماں ابا کا دل سے احترام کرو لیکن بعد میں جب لڑ کر نکلو گے نا تو اس وقت جو بیغیرتی کے طعنے ملیں گے اس سے بہتر ہے کہ تھوڑے سے طعنے برداشت کرکے الگ ہوجاؤ۔

ہاں اگر اپکا بہت ہی اچھا اعلی اخلاق والا خاندان ہے آپکی اماں بڑی برداشت والی ہیں بہت پیاری اماں ہیں نیک اماں جو بہو کو اپنی سگی بیٹیوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھتی ہو اور بہو بھی ایسی مل جاۓ جو زبان پر ایلفی لگا کر رکھتی ہو تو پھر ساتھ رہنا چاہیے ساتھ رہنے کی برکتیں بہت زیادہ ہیں۔



موصول: بشکریہ اسماء ارشادی

۔
۔

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducalender&hl=en