Get Mystery Box with random crypto!

بریانی کی ایک پلیٹ برنس روڈ پر مزیدار حلیم اور بریانی کی دکان | زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

بریانی کی ایک پلیٹ
برنس روڈ پر مزیدار حلیم اور بریانی کی دکان کے سامنے رکھی میز کرسیوں میں سے ایک میز کے سامنے میں اور میرے چٹورے میاں بیٹھے تھے۔ ہم دونوں کو یہاں حلیم کھینچ لایا تھا۔ میں حلیم سے انصاف کر چکی تھی اور میاں جی ابھی بھی مصروف تھے۔ موقع غنیمت دیکھ کر میں آس پاس نظریں دوڑا رہی تھی۔ اسی اثنا میں ایک موٹر سائیکل آکر رُکی جس پر میاں بیوی اور دو بچے سوار تھے۔ انہوں نےموٹر سائیکل کھڑی کی اور یہ خاندان ہماری میز کے برابر والی میز پر براجمان ہوا۔ میاں بیوی جوان تھے اور بچے بھی چھوٹے تھے۔ لڑکی ۵ سے ۶ سال کی ہوگی اور لڑکا اس سے ذرا چھوٹا۔ اپنی طرف سے ماں بچوں کو خوب سجا سنوار کر لائی تھی۔ بچے خوش نظر آرہے تھے گویا تفریح ان کی پسند کی تھی۔ ماں اور باپ دونوں ہی جوان تھے لیکن چہرے مہرے سے سنجیدہ نظر آرہے تھے۔ ماں نے برقع پہن رکھا تھا اور باپ نے اوسط قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔کرسی پر بیٹھتے ہی بچی نے وہاں رکھی نمک دانی اور مصالحی کے ڈبے کو اپنے طرف کھینچا اور کہا ، ’’مصالحہ میں خود ڈالوں گی۔‘‘ ماں اور باپ دونوں مسکرا اٹھے ۔ویٹر آگیا، آرڈر کیا دیا گیا ، مجھے پتا نہیں چلا۔ مجھے پتا تب چلا جب آرڈر آگیا، ’’ایک سنگل پلیٹ بریانی۔‘‘ چار لوگ اورایک سنگل پلیٹ بریانی۔‘‘ ساتھ میں کھانے کے لیے دو چمچے۔ ماں نے ایک چمچہ بیٹی کو دیا اور دوسرا بیٹے کو۔ دونوں نے کھانا شروع کیا۔ ماں نے جگ میں سے پانی نکال کر خود پیا اور ایک گلاس پانی بچوں کے باپ کو دیا۔بیٹی نے پوچھا، ’’ اماں تم نہیں کھاؤگی؟‘‘ ماں نے کہا،’’ نہیں بیٹا مجھے بھوک نہیں تم کھاؤ‘‘۔ بچے کھانے میں مگن تھے اور ماں باپ اپنی اپنی سوچوں میں گم۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے۔ بچوں نے بریانی ختم کی۔ ماں نے بچوں کو پانی پلایا، ان کے مُنہ صاف کیے ۔ باپ نے بِل ادا کیا اور پھر چاروں اُٹھ کر چل دیئے۔ یہ ہے ماں اور باپ کی اصل تصویر، اور پھر جب یہ ٹڈے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو ماں باپ سے سوال کرتے ہیں، ’’ کیا کیا ہمارے لیے؟ کچھ تو کرتے ہمارے لیے‘‘

از فہمینہ ارشد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ