Get Mystery Box with random crypto!

📚 اردو نصیحتیں 📕

لوگوی کانال تلگرام urdunaseehaten — 📚 اردو نصیحتیں 📕 ا
لوگوی کانال تلگرام urdunaseehaten — 📚 اردو نصیحتیں 📕
آدرس کانال: @urdunaseehaten
دسته بندی ها: دین
زبان: فارسی
مشترکین: 3.68K
توضیحات از کانال

اِس چینل پر دینی، اخلاقی، اصلاحی، سماجی، اور خوب صورت تحریری گل دستے پیش کیے جائیں گے ۔ اِن شاء اللہ

Ratings & Reviews

3.00

2 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

0

4 stars

1

3 stars

0

2 stars

1

1 stars

0


آخرین پیام ها 5

2022-06-07 16:09:51 جو بھی پاگل ہوگا یا دماغ خراب ہوگا نیند کی کمی کی وجہ سے ہوگا۔ اس لیے خوب گہری نیند لو۔جب بھی نیند میں کمی ہونے لگے فورا ہوشیار ہو جاؤ نہیں تو خشکی بڑھ جائیگی اور انجن بھشٹ ہو جائیگا )ہمارے بزرگوں نے نیند کے لیے خاص طور سے ہدایت دی ہے( فرمایا حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے عام لوگوں کو کم سے کم 6 گھنٹے اور دماغی کام کرنے والوں کو کم از کم 8 گھنٹے سونا چاہیے حضرت والا کو جب گہری نیند آتی تھی فرماتے الحمد للہ غرق ہوکر کہ سویا یعنی نیند میں ڈوب گیا ) اور نیند آنے کے لیے انگریزی ادویات کا استعمال نہ کریں۔ یونانی یا ہومیوپیتھک دوا لیں۔
(قرآن کہتا ہے : وجعلنا نومکم سباتا )
ترجمہ: اور ہم نے تمہارے نیند کو آرام کا سبب بنایا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اردو نصيحـــــــتیں
•┅┄┈•※ ‌✤۝✤‌※┅┄┈•۔
┊ ┊ ┊ ┊۔
┊ ┊ ┊ ☽۔
┊ ┊ ☆۔
☆ ☆۔
فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:
https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیــــلی گـــــرام لنـکــــ:

t.me/UrduNaseehaten
307 viewsأحمر قاني, 13:09
باز کردن / نظر دهید
2022-06-07 03:45:02 عزت کی روٹی اور پاکیزہ غذا

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

اللہ رب العالمین ہم سب کے خالق ہیں، ہم سب کے اکیلے رازق ہیں، تاہم رزق کی فراہمی کے لیے اسباب رکھے ہیں، انسان کو سمجھ بوجھ دی گئی، حمل ونقل کے ذرائع میسر کیے گئے، امن بحال رکھا گیا تاکہ اس کی معیشت مستحکم رہے۔

انسان کو صرف روزی نہیں دی گئی بلکہ اس کی عزت اور احترام کا مکمل لحاظ رکھا گیا ہے، طیب اور پاکیزہ غذا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ وَحَمَلْنَٰهُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَفَضَّلْنَٰهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍۢ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا﴾ (بني إسرائيل: 70).

قصہ ایک عفیفہ اور پاکدامن عورت کا

قرآنِ مجید میں ( مریم بنت عمران ) کا قصہ جا بجا مذکور ہے، آپ کی ولادت کا ذکر ہے، عمدہ پروش کے نتیجے میں پاکیزہ اور بے داغ جوانی کا بیان ہے، آپ کی عبدیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، آپ کے علم، رب کے وعدوں پر یقین اور مقامِ عالی کو اجاگر کیا گیا ہے، آپ کے سجدوں اور دیگر عبادتوں کا بھی ذکر ہے، اسی طرح آپ کی کچھ کرامات بھی بتائے گئے ہیں۔

آپ ایک خاتون ہیں، اور رب العالمین نے اس عظیم صنف ( عورت ) کو کسب ومعاش کی مسؤولیت نہیں دی ہے، اس کو باپ پھر شوہر کے کسب سے جوڑ کر تکریم کی ہے۔

( مریم بنت عمران ) یتیمی کے ایام گزارتے ہوئے زکریا علیہ السلام کے زیرِ پرورش پلی بڑھی۔
نبی کی تربیت، اور خود امراۃ عمران یعنی مریم کی ماں کے گود سے سیکھے عفت و پاکدامنی کے سبق کا یہ اثر رہا کہ مریم نے اپنے لڑکپن اور جوانی پر حرف آنے نہیں دیا۔ غربت سے نمٹنے کے نام بر اپنی آبرو کا سودا نہیں کیا۔

صدیقہ کا دسترخوان

( مریم ) نے پاکیزگی کو بحال رکھا، اور رب نے اپنے وعدے ﴿وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُۥٓ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ بَٰلِغُ أَمْرِهِۦ﴾ (الطلاق: 3)، کے مطابق آپ کے دروازے پر عمدہ، طیب، عزت والی روزی پہنچادی۔ زکریا علیہ السلام کے پوچھنے پر جواب میں کہا: ﴿هُوَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (آل عمران: 37).

صدیقہ عفیفہ کی ایک اور تکریم

رب کی حکمتِ بالغہ کے تحت جبریل علیہ السلام ( مریم ) کے گریبان میں پھونک ماری جس سے - باذن اللہ - آپ کو حمل ٹہر گیا، در اصل یہ اعجازی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ہاں طے شدہ تھی۔

( مریم علیہ السلام ) کی گود میں شیر خوار بچہ ہے، حالتِ نفاس میں ہیں، نقل وحرکت میں نشاط کی کمی ہے، مستزاد یہ کہ آپ لوگوں سے بھی دور رہیں: ﴿فَٱنتَبَذَتْ بِهِۦ مَكَانًا قَصِيًّا﴾ (مريم: 22)۔

مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے عزت والی روزی دی، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچائے رکھا، کسی بشر کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا، ضعیف و ناتواں صنفِ نازک کی عزت میں رتی برابر کمی نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اکرام کرتے ہوئے، طیب اور مفید غذا کا بندوبست کیا، فرمایا: ﴿وَهُزِّىٓ إِلَيْكِ بِجِذْعِ ٱلنَّخْلَةِ تُسَٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا﴾ (مریم: 25).

مذکورہ آیتِ کریمہ کی روشنی میں اہلِ علم نے تفسیری معلومات کے علاوہ؛ علمی لطائف، تربیتی امور، بلاغی فوائد بھی بیان کیے ہیں، اس تحریر میں ایک بات کا ذکر کروں گا۔

( مریم علیہ السلام ) سے کہا گیا: تو کھجور کا تنا اپنی طرف ہلا، وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گا۔

غور طلب بات

یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ درخت سے یا کسی بھی اوپری حصے سے پکا ہوا پھل یا پکی ہوئی تازہ کھجوریں زمین پر گرتی ہیں تو وہ اپنی اصل حالت میں نہیں ہوتی ہیں، چھلکا کھل جاتا ہے، اس کی تری زمینی دھول، مٹی، گرد وغبار سب کو اپنے مغز کا حصہ بنا لیتی ہے۔ یوں اس کا ذائقہ، مٹھاس، نفاست سب فاسد ہو جاتی ہیں۔

مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران کی تکریم فرمائی، کھجوریں آپ کے ہلانے سے اوپر سے گرتی رہیں مگر آپ کو ایسے ملتی گویا آپ نے اپنے ہاتھ سے کھجوریں توڑی ہوں۔
غور کریں رب کی اس تکریم پر: ﴿تُسَٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا﴾۔

اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدے ومنہج پر علامہ محمد بن احمد السفارینی (ت 1188ھ) رحمہ اللہ کی منظوم تالیف ( الدرة المضية في عقد أهل الفرقة المرضية ) جو علمی دنیا میں ( العقيدة السفارينية ) سے مشہور ہے، کتاب کے پانچویں باب کی ایک فصل کا موضوع ( کراماتِ اولیاء ) ہے، اس موضوع کے اشعار کی شرح میں شیخ محمد بن صالح ابن عثیمین رحمہ اللہ نے مریم بنت عمران کی کرامات کا بھی ذکر کیے ہیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ سے متعلق فوائد میں (شرح العقيدة السفارينية: ص ٦٤٨ ) یہ بات لکھے ہیں:
فكان يسقط هذا الرطب اللين جدًا من مكانٍ عالٍ على الأرض ويبقى كما هو، وكأنه مخروف باليد.
323 viewsأحمر قاني, 00:45
باز کردن / نظر دهید
2022-06-06 15:24:18 إِنَّا كَفَيۡنَٰكَ ٱلۡمُسۡتَهۡزِءِينَ.(الحجر: 95)
آپ کا مذاق اڑانے والوں سے بدلہ کے لیے ہم کافی ہیں۔
شیخ سعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یہ اللہ کا وعدہ ہے اپنے نبی سے کہ گستاخی کرنے والے آپکا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے، اور اللہ تعالی ان کومختلف سزاؤں میں گرفتار کرکے آپ کی حفاظت فرمائے گا، اور اللہ تعالی نے اپنا یہ وعدہ پورا بھی کیا کہ ناموس رسالت کے گستاخوں کو بدترین طریقہ سے ہلاک و برباد کیا۔
سُنَّةَ ٱللَّهِ فِى ٱلَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّهِ تَبْدِيلًا (احزاب: 62)
ایسے نافرمانوں کو برباد کرنے کا قانون الہی امم رفتہ میں بھی رہا، اور آپ اس قانون الہی میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔
محمد اسلم جامعی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اردو نصيحـــــــتیں
•┅┄┈•※ ‌✤۝✤‌※┅┄┈•۔
┊ ┊ ┊ ┊۔
┊ ┊ ┊ ☽۔
┊ ┊ ☆۔
☆ ☆۔
فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:
https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیــــلی گـــــرام لنـکــــ:
t.me/UrduNaseehaten
49 viewsأحمر قاني, 12:24
باز کردن / نظر دهید
2022-06-06 04:08:50 وہ آپ کو سیدھے راستے سے بھٹکا رہے ہیں اور اگر پیش کر دیا تو آپ ہمارے سینٹر کے نمبر پر اسے بھیج دیجیے۔ اگر حوالہ صحیح ہوا اور مذکورہ ٹکڑا ثابت ہو گیا تو اُن کی شکر گزاری کی جائے گی اور علی الاعلان رجوع کیا جائےگا ورنہ پیار محبت سے اُن کو جواب دیا جائے گا۔

خلاصۃ التحقیق :
”وَجْعَلْنِی مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ“ وضو کے بعد کی دعا میں ایک بے اصل اور من گھڑت اضافہ ہے لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اِس بے اصل اور من گھڑت الفاظ کو نا پڑھیں۔ واللہ هو الهادی.

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین.

03-ذو القعدہ-1443ھ
04-جون-2022

︗︗︗︗︗︗︗︗︗
اردو نصیـــــحتیں
︘︘︘︘︘︘︘︘︘
فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:

https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیــــلی گـــــرام لنـکــــ:
t.me/UrduNaseehaten
195 viewsأحمر قاني, 01:08
باز کردن / نظر دهید
2022-06-06 04:08:45 وضو کے بعد کی دعا میں ایک بے اصل اضافہ ”وَجْعَلْنِی مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ“

از قلم :
حافظ اکبر علی اختر علی سلفی /عفا اللہ عنہ

ناشر : البلاغ اسلامک سینٹر
===================

الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، أما بعد :

محترم قارئین! میں نے کئی مسجدوں میں دیکھا کہ وہاں کے وضو کھانے میں ایک سٹیکر لگا ہوا ہے، جس میں لکھا ہوا ہے:

وضو کے بعد کی دعا
”أَشْهَدُ أَنْ لَّاإِلٰهَ إِلَّا اللہُ ،وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، اللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِيْنَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ المُتَطَهِّرِيْنَ، وَجْعَلْنِی مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ“

راقم کہتا ہے کہ :

پہلا ٹکڑا صحیح مسلم میں ہے۔

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”ہمارے ذمے اونٹ چرانے کا کام تھا، میری باری آئی تو میں اونٹوں کو چرا کر شام کے وقت اُن کے رہنے کی جگہ لے کر آیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوکر لوگوں سے کچھ ارشاد فرما رہے تھے۔ مجھے آپ کی یہ بات سننے کو ملی کہ: ”جو مسلمان اچھی طرح سے وضو کرے، پھر پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ کھڑا ہو کر دو رکعتیں پڑھے (یعنی ظاہری اور باطنی دونوں طور پر متوجہ رہے، دل میں کوئی دنیا کا خیال نہ لائے) تو اُس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی“۔ میں نے کہا: کیا عمدہ بات فرمائی۔ تو میرے سامنے ایک کہنے والا کہنے لگاکہ اِس سے پہلی والی بات اِس سے بھی زیادہ عمدہ تھی۔ میں نے دیکھا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے دیکھا کہ تم ابھی آئے ہو۔ آپ ﷺ نے (اِس سے پہلے) فرمایا تھا :”تم میں سے جو شخص وضو کرے اور اپنے وضو کو پورا کرے یا اچھی طرح سے وضو کرے، پھر یہ کہے:”أَشْهَدُ أَنْ لَّاإِلٰهَ إِلَّا اللہُ ،وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ“ ”میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں ، وہ تنہا ہے کوئی اُس کا شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں“    تو اُس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھولے جائیں گے جس میں سے چاہے داخل ہو جائے“۔ (صحیح مسلم :234)

دوسرا ٹکڑا سنن ترمذی وغیرہ میں ہے۔
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جس نے اچھی طرح سے وضو بنایا پھر کہا :”أَشْهَدُ أَنْ لَّاإِلٰهَ إِلَّا اللہُ ،وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، اللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِيْنَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ المُتَطَهِّرِيْنَ“ ”میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں، وہ تنہا ہے کوئی اُس کا شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں، اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے اور پاکی اختیار کرنے والوں میں سے بنا“ تو اُس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھولے جائیں گے جس میں سے چاہے داخل ہو جائے“۔
(سنن الترمذی بتحقیق الألبانی:55، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
نیز دیکھیں:(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی بتحقیق الہلالی، ص:76/1 اور 77 وغیرہ)

اِس ٹکڑے کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے جبکہ شیخ شعیب الارنؤوط اور دیگر کئی محققین نے غیر ثابت قرار دیا ہے۔
اِس ٹکڑے کی مفصل تحقیق جاری ہے۔جو نتیجہ نکلے گا، ان شاء اللہ اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔

تیسرا ٹکڑا ”وَجْعَلْنِی مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ“  کسی بھی کتاب میں  نہیں مل سکا۔
تلاشِ بسیار کے باوجود مجھے یہ ٹکڑا - میرے پاس موجود - حدیث کی کسی بھی کتاب میں نہیں مل سکا۔ یہ جملہ کسی شخص نے سنن ترمذی کے الفاظ کے بعد بڑھا دیا ہے۔ اللہ ایسے شخص کو ہدایت دے. آمین.

اِس پر مزید یہ کہ جن مسجدوں کے وضو کھانوں میں میں نے اِس جملے کو دیکھا ہے، کسی میں بھی کوئی حوالہ نہیں دیا ہوا ہے۔ اگر کسی بھائی کو یہ جملہ دنیا میں موجود کسی بھی کتاب میں با سند ملے تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ واللہ ولی التوفیق.

ایک اہم بات : 
کچھ احباب ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ مضمون پڑھتے ہیں تو اپنے ٹچ میں موجود عالم دین یا علماء سے پوچھتے ہیں تو اُن میں سے کچھ علماء جواباً یہ کہتے ہیں کہ اُن کو کہنے دو ، وہ وہابی ہے، وہ دیوبندی ہے، اُس کا کام ہی یہی ہے وغیرہ وغیرہ۔

ایسے احباب سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب اِس طرح کا جواب آپ کو ملے تو آپ جواب دینے والے عالم دین سے پیار محبت سے پوچھیں کہ آپ مجھے صرف اتنا بتائیں کہ کیا وضو کے بعد کی دعا میں ”وَجْعَلْنِی مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ“ پڑھنا نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے؟ کیا یہ نبی کریم ﷺ کی تعلیم ہے ؟ اگر ہاں تو حوالہ بتا دیجیے۔ بس۔ اگر انہوں نے حوالہ پیش نہیں کیا تو گویا
186 viewsأحمر قاني, 01:08
باز کردن / نظر دهید
2022-06-05 08:56:45 ليس له تأخير الصبيان السابقين ، وهو مذهب الشافعية وصوبه في الإنصاف۔ (الفروع)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :بہتر یہ ہے کہ دو لوگوں کے درمیان میں بچوں کو کھڑا کیا جائے تاکہ وہ بڑوں کو دیکھ کر نماز پڑھنا سیکھیں۔ يستحب أن يقف بين كل رجلين صبى ليتعلموا منهم أفعال الصلاة۔ (المجموع :4/293)
درج بالا گفتگو کی روشنی میں حسب ذیل مشورے پیش ہیں:
1۔ سات سال سے کم عمر کے بچے اگر پاکی وناپاکی کی تمیز نہ رکھتا ہو تو انھیں مسجد میں لانا جائز نہیں ہے۔بہتر ہے انھیں گھر میں ہی نماز کے طور طریقے اور پاکی وناپاکی میں تمیز سکھائیں۔
2۔ سات سال سے کم عمر کے بچے اگر پاکی وناپاکی کی تمیز رکھتا ہو تو مسجد میں لانا درست ہے؛ البتہ مسجد میں لانے کے بجائے گھر میں نماز کی تعلیم دینا زیادہ مناسب ہے۔
3۔ والدین کو چاہیے کہ سات سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو مسجد آنے اور شریک جماعت ہونے کا حکم کریں۔
4۔ امام سے قریب ( دو چار لوگوں تک) بچوں کو کھڑا نہ کریں؛ بلکہ ایسے لوگ کھڑے ہوں جو ایمرجنسی کی حالت میں امامت کراسکتے ہوں۔
5۔ بچوں کی مستقل کوئی صف لگانے کے بجائے عام لوگوں کی صف میں اپنے والدین یا سرپرست کے ساتھ کھڑے کریں۔ اگر سرپرست موجود نہ ہوتو دو لوگوں کے درمیان میں انھیں کھڑے کریں۔
6۔ اگر تب بھی ان میں سے کوئی شور وشغب یا نماز کے نامناسب عمل کریں تو انھیں ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے نرمی وخوش اسلوبی سے سمجھائیں۔ انھیں مسجد سے بھگانا درست نہیں ہے۔

عبد اللہ ممتاز
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انتخاب: محمد بن نذر
┄┅════❁❁════┅┄
اردو نصیــــــــحتیں
┄┅════❁❁════┅┄
فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:
https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیـــلی گــــرام لنــــــــك:
t.me/UrduNaseehaten
144 viewsأحمر قاني, 05:56
باز کردن / نظر دهید
2022-06-05 08:56:18 نماز میں بچوں کی صف کا مسئلہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ۔ (رواہ مسلم) کہ بالغ اور ہوش مند لوگ (نماز میں ) مجھ سے قریب کھڑے ہوں۔ پھر اس کے بعد کے درجے کے لوگ اور پھر اس کے بعد کے درجے کے لوگ ۔ یعنی امام سے قریب عاقل بالغ اور ہوش مند (جوکسی ایمرجنسی کی صورت میں امامت کراسکتے ہوں) کھڑے ہوں۔ پھر وہ لوگ جو عاقل بالغ تو ہوں؛ لیکن امام نہیں بن سکتے ۔ پھر بچے اور پھر خواتین (اگر موجود ہوں تو)۔
اس حدیث کا دو مقصد ہے:
اول: ہوش مند اور عاقل لوگوں کو ترغیب ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے پہلے مسجد حاضر ہوا کریں اور دیگر لوگوں کو ترغیب ہے کہ وہ بچوں سے پہلے مسجد آجایا کریں۔
دوم: یہ حکم اس صورت میں ہے جب سارے لوگ یکجا ہوں تب اس ترتیب کے مطابق صفیں درست کی جائیں؛ لیکن تکبیر تحریمہ کے وقت اتفاق سے امام کے علاوہ کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو ایمرجنسی کی صورت میں امام بن سکتا ہو، اس لیے دوسرے نمبر کے لوگ پہلی صف میں امام سے قریب کھڑے ہوگئے۔ بعد میں کوئی عالم فاضل شخص آیاتو انھیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے شخص کو صف سے کھینچ کر پیچھے کردے اور خود امام سے قریب کھڑے ہوجائے۔
بچوں کے معاملے میں عام طور سے دیکھا یہ جاتا ہے کہ اگر وہ نماز میں جلدی آجائیں اور ابتدائی صفوں میں کھڑے ہوجائیں تو بعد میں آنے والا مصلی بچے کو کھینچ کر پچھلی صف میں بھیجتا ہے اور خود ان کی جگہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ حدیث بالا ؛ بیان ترجیح کے لیے ہے، اس حدیث نے مقام ریزرو ہرگز نہیں کیا ہے کہ امامت کے لائق لوگوں کی جگہ امام سے قریب ریزرو ہوگئی اور بچوں کی کے لیے پچھلی صف ریزرو ہوگئی کہ اگر وہ بڑوں کی صف میں شامل ہوجائے تو بعد میں آنے والا "بڑا"اسے کھینچ کر واپس اس کے "ریزرو" مقام پر پہنچا دے۔
علامہ ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " الصِّبْيَانَ مَتَى سَبَقُوا الْبَالِغِينَ إلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ لَمْ يَجُزْ لَهُمْ إخْرَاجُهُمْ " ۔ (الفتاوی:1/229) کہ بالغوں پر سبقت کرتے ہوے پہلی صف مین آکھڑے ہوں تو انھیں صف سے باہر نکالنا درست نہیں ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ابن رشد کا قول نقل کیا ہے کہ امام بخاری کے ترجمۃ الباب اور اس میں مذکور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے بھی عام لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑے کیے جاتے تھے، ان کی الگ سے کوئی صف نہیں ہوتی تھی۔ وأنهم يصفون معهم لا يتأخرون عنهم۔ (فتح الباري 3/253)
بچے کسی بھی قوم کے اصل سرمایہ ہوتے ہیں، انھیں بچپن میں جیسی تعلیم ملے گی، اگلی نسل اور پوری قوم ویسے ہی تیار ہوگی؛ لیکن ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر معاملات مین بچوں کے مسائل کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ویسے ہی مسجدوں میں بچوں کو نہ صرف اگنور کیا جاتا ہے ؛ بلکہ انھیں اگلی صف سے پچھلی صف میں دھکیلنے، شور مچائے تو ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور بسا اوقات مسجد سے نکالنےتک کا رویہ عام ہے۔ اس سےان کے حق کی پامالی ودل شکنی ہوتی ہے، اپنے بڑوں کے تئیں دل میں تنفر پیدا ہوتا ہے، یہی بچے جب بڑے ہوں گے تو اپنے سے بڑوں کا احترام کریں گے اور نہ ہی مسجد اور نماز کے تئیں ان کے دل میں محبت ہوگی۔ یہ انسانی فطرت ہے جہاں سے ایک مرتبہ دھتکار دیا جائے (چاہے وجہ کچھ بھی ہو) اس سےدوبارہ محبت ہوپانا مشکل ہوتا ہے۔ یوں تو ہر شخص احترام کا مستحق ہے اوردوسروں سے اس کی توقع کرتے ہیں؛ لیکن بچے اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، مجمع عام میں اس طرح انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا ان پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھیں مسجد میں ہنگامہ کرنےاور آپس میں کشتی کی اجازت دے دی جائے؛ بلکہ اس کی تدبیر کی جائے۔
التحریر المختار میں ہے کہ "موجودہ زمانے میں بہتر یہ ہے بچوں کو بڑوں کے صف میں شامل کیا جائے؛ کیوں کہ بچے جب یکجا ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے فساد نماز کا سبب بنتے ہیں اور کئی مرتبہ بڑوں کی نماز بھی خراب ہوتی ہے"۔ قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال. (التحرير المختار، كتاب الصلاة، باب الإمامة 1 /571)
شیخ ابن مفلح حنبلی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: نماز کے لیے سبقت کرنے والے بچوں کو پیچھے کرنا جائز نہیں ہے، یہی شافعیہ کا مذہب ہے اور اسی قول کو الانصاف(حنابلہ کی معتبر کتاب) میں درست قرار دیا ہے۔
140 viewsأحمر قاني, 05:56
باز کردن / نظر دهید
2022-06-04 08:10:41 #نماز نہیں پڑھتے کیا؟
"مٓیں ہندو ہوں، مسلم نہیں ہوں".
کل (٣٠/مئی٢٠٢٢م بروز پیر) کی بات ہے، دوپہر کے بعد آفس سے روم کی طرف جاتے ہوئے ایک صاحب کو دیکھا جو راؤنڈ اباؤٹ سے ذرا آگے فٹ پاتھ پر کھڑے لفٹ کے منتظر تھے، قریب پہونچ کر خود ہی گاڑی روک دی اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
یاد رہے کہ لفٹ کا سلسلہ عموماً اس مخصوص جگہ پر چلتا رہتا ہے، گاڑی چل چکی تھی، حسب روایت وہی واجبی سی گفتگو یعنی نہایت مختصر تعارف مع حال واحوال ۔۔۔ نام ایسا کامن سا بتایا تھا جس سے دین دھرم کا اندازہ نہ ہوسکا، چہرے کا بعض حصہ ماسک کی زد میں تھا.
اس سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر ایک (خواہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، مسلم ہو یا غیر مسلم حتی کہ پکا بھگوا دھاری کیوں نہ ہو) کی زبان پر السلام علیکم، الحمد للہ، ماشاءاللہ وغیرہ عام طور پر جاری رہتاہے۔
لہذا میں اسے مسلم سمجھ رہا تھا، پس گفتگو کرتے ہوئے درمیان میں پوچھ لیا، مسجد میں نہیں دِکھتے، نماز نہیں پڑھتے کیا ؟ اس سے ایسا سوال ہوگا اس کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا، وہ بھونچکا میرا منہ تکنے لگا، مجھے کیا خبر! یہ ہندو ہے اور جواب دینے سے کترا رہا ہے. جواب نہ ملا تو مجھے گمان ہوا کہ شاید شرما رہا ہے، دوبارہ پوچھ بیٹھا تو دھیمے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بولا: "میں ہندو ہوں، مسلم نہیں ہوں".
آخر وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا؟ یہی نا کہ وہ ہندو ہے، اسلئے نماز نہیں پڑھتا.
وہ غیر مسلم ہے اس لئے مسجد نہیں آتا. یعنی ایک ہندو یہ سمجھتا ہے کہ مسجد آنا، نماز قائم کرنا یہ ہندوؤں اور غیر مسلموں کا کام نہیں ہے. یہ تو مسلمانوں کا کام ہے، جو ان پر فرض ہے.
اور مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں سمجھتی کہ نماز وہ نہیں پڑھتے جو ہندو یا غیر مسلم ہوں.
مومنو! تم پر نماز فرض ہے، سوائے عذرِ شرعی کے بہر صورت وقت مقررہ پر مسجد میں اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ واللہ المستعان
حافظ ابن نذیر سلفی
┄┅════❁❁════┅┄
اردو نصیــــــــحتیں
┄┅════❁❁════┅┄
فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:
https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیـــلی گــــرام لنــــــــك:
t.me/UrduNaseehaten
315 viewsأحمر قاني, 05:10
باز کردن / نظر دهید
2022-06-03 13:21:26
بد نگاہی کے جسم پر اثرات ؟؟؟

ایک ایسا مضمون جسے پڑھ کر یقیناً ہمیں اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی تو اس میں کسی بھی درجے میں مبتلا تو نہیں؟

نگاہیں جس جگہ جاتی ہیں وہیں جمتی ہیں، پھر ان کا اچھا اور برا اثر اعصاب و دماغ اور ہارمونز پر پڑتا ہے، شہوت کی نگاہ سے دیکھنے سے ہارمونری سسٹم کے اندر خرابی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ان نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت اخراج کا باعث بن جاتا ہے اور ہارمونری گلینڈز ایسی تیز اور خلاف جسم زہریلی رطوبتیں خارج کرتے ہیں، جس سے تمام جسمانی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور آدمی بے شمار امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟
صرف دیکھا ہی تو ہے۔۔۔
یہ کون سا غلط کام کیا ہے؟
تو کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اچانک اگر شیر یا سانپ سامنے آجائے تو آدمی صرف دیکھ لے تو صرف دیکھنے سے جان پر کیا بنتی ہے؟
سبزہ اور پھول صرف دیکھے جاتے ہیں تو پھر ان کے دیکھنے سے دل مسرور اور مطمئن کیوں ہوتا ہے؟
زخمی اور لہولہان کو صرف دیکھتے ہی تو ہیں لیکن پریشان غمگین اور بعض بے ہوش ہو جاتے ہیں، آخر کیوں؟

واقعی تجربات کے لحاظ سے یہ بات واضح ہے کہ نگاہوں کی حفاظت نہ کرنے سے انسان ڈپریشن بے چینی اور مایوسی کا شکار ہوتا ہے جس کا علاج ناممکن ہے کیونکہ "نگاہیں" انسان کے خیالات اور جذبات کو منتشر کرتی ہیں، ایسی خطرناک پوزیشن سے بچنے کیلئے صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا سہارا لینا ضروری ہے۔

بعض لوگوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ صرف تین دن نگاہوں کو شہوانی محرکات خوبصورت چہروں میں لگائیں تو صرف تین دن کے بعد جسم میں درد، بے چینی، تھکان، دماغ بوجھل بوجھل اور جسم کے عضلات کھینچے جاتے ہیں۔
اگر اس کیفیت کو دور کرنے کیلئے سکون آور ادویات بھی استعمال کی جائیں تو کچھ وقت کیلئے سکون اور پھر وہی کیفیت اس کا واحد علاج نگاہوں کی حفاظت ہے۔

بہرحال مردوں اور عورتوں کو عفت اور پاک دامنی حاصل کرنے کیلئے بہترین علاج اپنی نظروں کو جھکانا ہے، خاص طور پر اس معاشرے اور گندے ماحول میں بے شرمی اور بے حیائی اس قدر عام ہے کہ نظروں کو محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے، اس سے بچنے کیلئے ظاہری و عملی شکل تو یہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی کہ چلتے پھرتے اپنی نگاہوں کو پست (جھکا کر) رکھیں اور دل کے اندر اللّٰہ کا خوف ہو کہ اللّٰہ مجھے دیکھ رہا ہے، جس قدر اللّٰہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہوگا اتنا ہی حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوگا، حدیث پاک میں آقا کریم ﷺ کاارشاد ہے کہ:
آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے۔
جبکہ قرآنِ کریم میں اللّٰہ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ: زنا کی سوچ کے قریب بھی مت جاؤ بے شک یہ بہت ہی برا راستہ ہے۔

اب آپ خود دیکھیں کہ جب تک ہم دیکھتے نہیں تو سوچ کیسے سکتے ہیں؟
اس لئے جب نگاہ مسلسل برائی دل میں رکھ کر کسی کا پیچھا کرے گی تو زنا کا اور زنا کی سوچ کا معاملہ دل میں تقویت پکڑے گا، اِسی لئے جہاں اللّٰہ رب العزت نے مسلمان عورت کا پردے کا حکم دیا وہیں مرد کو بھی اپنی نگاہیں جھکا کے رکھنے کا حکم دیا، ان آیات پہلے کس کو مخاطب کیا گیا یا بعد کی آیت میں کس کو حکم دیا گیا مرد و زن دونوں اس اخلاقی معاملے کے مکمل ذمہ دار اور حقوق العباد کی معاشرتی سیڑھی میں آتے ہیں۔

*بدنظری کے طبی نقصانات:*
ایک بدنظری سے کئی مرض پیدا ہوجاتے ہیں، اگرچہ ایک سیکنڈ کی بدنظری ہو دل کو ضعف ہوجاتا ہے، فوراً کشمکش شروع ہوجاتی ہے کہ نہیں؟
کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر دیکھ رہا ہے کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟
اس کشمکش سے قلب میں ضعف پیدا ہوتا ہے اور گندے خیالات سے مثانے کے غدود متورم ہوجاتے ہیں جس سے اس کو بار بار پیشاب آنے لگتا ہے، پیشاب سے پہلے یا بعد میں رطوبتوں کے اخراج کامعاملہ پیدا ہو جاتا ہے اور انسان کو جسمانی دیمک کی بیماریاں لگ جاتی ہیں ایسے جسمانی دیمک کی بیماری کے مریضوں کی تعداد مرد اور عورت دونوں میں ہی آجکل بہت زیادہ ہے اور ان کے اثرات بد آئندہ آنے والی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اور شادی شدہ زندگی کا سکھ ہمیشہ کے لئے ناپید ہو جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بلوغت کے فورا بعد شریعت شادی پر زور دیتی ہے کہ اس کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے، ان سب معاملات سے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں جس سے دماغ کمزور اور نسیان پیدا ہوجاتا ہے، ہر عصیان (برائی) کا سبب نسیان ہے اللّٰہ تعالیٰ کی ہر نافرمانی سے قوت دماغ اور حافظہ کمزور ہوجاتا ہے، بھول کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اور ایسے انسان کا علم بھی ضائع ہوجاتا ہے، پھر گردے کمزور ہوتے ہیں اور بدنگاہی کی بد عادت میں سارے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں، اسے اس طرح سمجھیں کہ زلزلے میں کیا ہوتا ہے؟ جب کہیں زلزلہ آتا ہے تو عمارت کمزور ہو جاتی ہے یا نہیں؟
#منقول
︗︗︗︗︗︗︗︗︗
اردو نصیـــــحتیں
︘︘︘︘︘︘︘︘︘
فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:

https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیــــلی گـــــرام لنـکــــ:
t.me/UrduNaseehaten
388 viewsأحمر قاني, 10:21
باز کردن / نظر دهید
2022-06-02 15:42:44 نوجوان اور مولوی صاحب
(بات ہے شرک کی)
سلسلہ (١)
نوجوان: السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
مولوی صاحب: وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔خیریت۔
نوجوان: الحمدللہ
مولوی صاحب: کیسے آنا ہوا؟
نوجوان: آپ کے ہم پر کچھ الزامات ہیں بس وہی پوچھنے کے لئے آیا ہوں ۔
مولوی صاحب: نعوذ باللہ۔ ہم نے تو کبھی کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا۔
نوجوان: آپ لوگ بتوں اور صنم پرستوں کے بارے میں اترنے والی آیتوں کو ہمارے بزرگانِ دین اور ہم مریدوں پر چسپا کرتے ہو۔
مولوی صاحب ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے۔۔ اس اعتراض کے دو جواب ہیں:
١) جو شخص بھی اللہ کے علاوہ کسی پیر، پیغمبر، ولی، مرشد، شیخ، مزعوم بندہ نواز یا غریب نواز کو معبود کا درجہ دے گا یا اللہ کی عبادت کی طرح اس کی عبادت کرے گا تو گویا اس نے اس کو معبود بنا کر بت بنا لیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا، لَعَنَ اللَّهُ قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ )
رواه الإمام أحمد في " المسند " (12/314) وقال المحققون : إسناده قوي . وصححه الشيخ الألباني في كتاب " تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد " (ص/24)
اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا، اللہ کی لعنت ہے اس قوم پر جس نے اپنے نبیوں کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ نے فرمایا: وَكُلُّ مَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اَللَّهِ فَهُوَ وَثَنٌ ، صَنَمًا كَانَ أَوْ غَيْرَ صَنَمٍ ؛ "( التمهيد " 5/45)
اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کی بھی عبادت کی جائے وہ وثن (بت) ہے،چاہے وہ صنم ہو یا کوئی اور چیز۔
اس صورت میں نبیوں، ولیوں اور بتوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔
٢) اُس زمانے کے مشرکین اور اِس زمانے کے وہ مسلمان جو شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں دونوں کا عقیدہ و نظریہ ایک ہی ہے.
نوجوان: وہ کیسے؟
مولوی صاحب: وہ اللہ تعالیٰ کو خالق (پیدا کرنے والا) مالک اور مدبر (کائنات کا نظام چلانے والا اور تدبیر کرنے والا) ماننے کے باوجود عبادت کے لیے بتوں کے سامنے جھکتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قریبی ہیں اور اور ہمارے سفارشی ہیں بالکل ایسے ہی آج کے مسلمان بھی بزرگانِ دین کو پکارتے ہیں کہ وہ ہمارے سفارشی ہیں، اُن میں سے کچھ ایسے تھے جو اولیاء کی عبادت کرتے تھے جیسے آج مسلمان کرتے ہیں (سورہ اسراء :57) کچھ ایسے تھے جو فرشتوں کی عبادت کیا کرتے تھے (سورہ سبا:40-41) فرشتے اللہ تعالیٰ کے اولیاء میں سب سے اونچے مرتبے پر ہیں ،اور کچھ ایسے تھے جو نبیوں کی عبادت کیا کرتے تھے (سورہ مائدہ:54-76/ 116-117)
اب دیکھو کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے بتوں کی پرستش کرنے والوں کو کافر قرار دیا وہیں پر ولیوں، فرشتوں اور نبیوں کی عبادت کرنے والوں کو بھی کافر قرار دیا۔
اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ وہ مشرکین صرف بتوں ہی کو پکارتے تھے پھر بھی آج کے وہ مسلمان جو شرک اکبر میں ملوث ہیں اِن میں اور اس زمانے کے مشرکین میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کا بھلا کرسکتے ہیں نہ برا۔
نوجوان: مولوی صاحب! بات کو سمجھئیے ؛ کفار بتوں کی پوجا کرتے تھے،ان سے مانگتے تھے اور انہیں نفع ونقصان کا مالک بھی سمجھتے تھے جب کہ ہم ایسا نہیں کرتے ہم تو صرف ان کی طرف رجوع اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔
مولوی صاحب: آپ نے تو بالکل وہی بات کہی جو کفار مکہ نے کہی تھی،وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَۘ-مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰىؕ- (سورہ زمر:03)
اور وہ جنہوں نے اس کے سوا اور مددگار بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں :) ہم تو ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے زیادہ نزدیک کردیں ۔
وَيَقُوۡلُوۡنَ هٰٓؤُلَاۤءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰهِ‌.( سورہ یونس:18) اور یہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں،
آپ کے نظریات اور اس دور کے نظریات بالکل ایک جیسے ہی ہیں۔
نوجوان: میرے سوالات کے آپ نے تشفی بخش جوابات دیے، میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن میرے اور بھی اعتراضات ہیں پھر کسی موقع پر میں آپ سے رجوع ہوں گا۔
مولوی صاحب: آپ ضرور آیئے، ہم آپ کی اسلامی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔
اے اللہ! ہم سب کو توحید پر جینے اور مرنے کی توفیق عطا فرما اور شرک سے ہماری حفاظت فرما۔
نوجوان: آمین

(اس مضمون کے لئے امام الدعوہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب "" کشف الشبہات"" سے استفادہ کیا گیا ہے.)

محمد اسلم جامعی
┄┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄┄
اردو نصیحتیں
┄┄┅┅✪❂✵✵❂✪┅┅┄┄
فيــــس بـــك پیـــج لنـــك:
https://www.facebook.com/UrduNaseehaten/
ٹیــــلی گـــــرام لنـکــــ:

t.me/UrduNaseehaten
432 viewsأحمر قاني, 12:42
باز کردن / نظر دهید