Get Mystery Box with random crypto!

نفحات القران

لوگوی کانال تلگرام nafhat_quran — نفحات القران ن
لوگوی کانال تلگرام nafhat_quran — نفحات القران
آدرس کانال: @nafhat_quran
دسته بندی ها: دین
زبان: فارسی
مشترکین: 348
توضیحات از کانال

نفحات القران فی لطائف علوم القران
قران کریم سے متعلق مکمل علمی اور تحقیقاتی چینل
جسمیں قران کریم سے متعلق
تفاسیر 🌸
تراجم 🌸
علمی نکات 🌸
مفسرین کے احوال 🌸
مخطوطات کا تعارف 🌸
علم تجوید و قرات 🌸
سے متعلق معتبر و مستند مقالات پیش کئے جاتے ہیں

Ratings & Reviews

3.00

2 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

0

4 stars

1

3 stars

0

2 stars

1

1 stars

0


آخرین پیام ها 5

2020-11-11 09:05:18 * (جب موت قریب محسوس ہو تو تسبیح و استغفار کی کثرت چاہئیے) *

*"فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ،"* حضرت صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعا کرتے تھے *"سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اَلّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ"*(٤ واہ البخاری)

حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے ہر وقت میں یہ دعا پڑھتے تھے، سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ اور فرماتے تھے کہ مجھے اس کا حکم کیا گیا اور دلیل میں اذا جاء نصر اللہ کی تلاوت فرماتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبادت میں بڑا مجاہدہ فرمایا یہاں تک کہ آپ کے پاؤں ورم کر گئے۔ (قرطبی)

((معارف القرآن ٨ / صـ ٨٣٧ معراج بک ڈپو دیوبند))
__________________
راقم : عصمت خان قاسمی پاتورڈوی _
217 viewsIsmat Khan qasmi, 06:05
باز کردن / نظر دهید
2020-11-02 15:09:39 * {{ایک جامع ترین آیت}} *


*اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ* ﴿ النحل /۹۰﴾


☜ *ترجمہ :* بےشک الله تعالیٰ اعتدال اور احسان اور اہل قرابت کو دینے کا حکم فرماتے ہیں اور کھلی برائی اور مطلق برائی اور ظلم کرنے سے منع فرماتے ہیں الله تعالیٰ تم کو اس کے لیے نصیحت فرماتے ہیں کہ تم نصیحت قبول کرو ۔ (بیان القرآن)
▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬

☜ *تفسير:* یہ آیت قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے اسی لئے سلف صالحین کے عہد مبارک سے آج تک دستور چلا آرہا ہے کہ جمعہ وعیدین کے خطبوں کے آخر میں یہ آیت تلاوت کی جاتی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی جامع ترین آیت سورۃ نحل میں یہ ہے (آیت) اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ الخ (ابن کثیر)

اور حضرت اکثم بن صفی تو اسی آیت کی بناء پر اسلام میں داخل ہوئے امام ابن کثیر نے حافظ حدیث ابو یعلی کی کتاب *"معرفۃ الصحابہ"* میں سند کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ اکثم بن صیفی اپنی قوم کے سردار تھے جب ان کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت اور اشاعت اسلام کی خبر ملی تو ارادہ کیا کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوں مگر قوم کے لوگوں نے کہا کہ آپ ہم سب کے بڑے ہیں آپ کا خود جانا مناسب نہیں اکثم نے کہا کہ اچھا تو قبیلہ کے دو آدمی منتخب کرو جو وہاں جائیں اور حالات کا جائزہ لے کر مجھے بتلائیں یہ دونوں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اکثم بن صیفی کی طرف سے دو باتیں دریافت کرنے کے لئے آئے ہیں اکثم کے دو سوال یہ ہیں ۔

*"مَنْ اَنْتَ وَمَااَنْتَ"* ۔ آپ کون ہیں اور کیا ہیں ۔

آپ نے ارشاد فرمایا کہ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کارسول ہوں اس کے بعد آپ نے سورہ نحل کی یہ آیت تلاوت فرمائی *"اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَان الایۃ"* ان دونوں قاصدوں نے درخواست کی کہ یہ جملے ہمیں پھر سنائیے آپ اس آیت کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ ان قاصدوں کو آیت یاد ہو گئی قاصد واپس اکثم بن صیفی کے پاس آئے اور بتلایا کہ ہم نے پہلے سوال میں یہ چاہا تھا کہ آپ کا نسب معلوم کریں مگر آپ نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی صرف باپ کا نام بیان کر دینے پر اکتفاء کیا مگر جب ہم نے دوسروں سے آپ کے نسب کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ بڑے عالی نسب شریف ہیں اور پھر بتلایا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کچھ کلمات بھی سنائے تھے وہ ہم بیان کرتے ہیں ۔

ان قاصدوں نے آیت مذکورہ اکثم بن صیفی کو سنائی آیت سنتے ہی اکثم نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکارم اخلاق کی ہدایت کرتے ہیں اور برے اور رذیل اخلاق سے روکتے ہیں تم سب ان کے دین میں جلد داخل ہوجاؤ تاکہ تم دوسرے لوگوں سے مقدم اور آگے رہو پیچھے تابع بن کر نہ رہو (ابن کثیر )

اسی طرح حضرت عثمان بن مظعون (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ شروع میں میں نے لوگوں کے کہنے سننے سے شرما شرمی اسلام قبول کرلیا تھا مگر میرے دل میں اسلام راسخ نہیں تھا یہاں تک کہ ایک روز میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا اچانک آپ پر نزول وحی کے آثار ظاہر ہوئے اور بعض عجیب حالات کے بعد آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قاصد میرے پاس آیا اور یہ آیت مجھ پر نازل ہوئی حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کو دیکھ کر اور آیت سن کر میرے دل میں ایمان مظبوط اور مستحکم ہوا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی (ابن کثیر نے یہ واقعہ نقل کر کے فرمایا کہ اسناد اس کی جید ہے)

اور جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت ولید بن مغیرہ کے سامنے تلاوت فرمائی تو اس کا تاثر یہ تھا جو اس نے اپنی قوم قریش کے سامنے بیان کیا۔

واللہ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ وان اصلہ لمورق واعلاہ لثمروما ہو بقول بشر : خدا کی قسم اس میں ایک خاص حلاوت ہے اور اس کے اوپر ایک خاص رونق اور نور ہے اس کی جڑ سے شاخیں اور پتے نکلنے والے ہیں اور شاخوں پر پھل لگنے والا ہے یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہوسکتا ۔

((معارف القرآن ج ٥ ص ٣٨٧-٣٨٨ معراج بک ڈپو دیوبند))
▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬
راقم : عصمت خان قاسمی پاتورڈوی
242 viewsIsmat Khan qasmi, 12:09
باز کردن / نظر دهید
2020-10-29 06:40:00 * "اُوْلِیْ الْاَمْر" کون لوگ ہیں؟ *

تیسرا درجہ احکام کا وہ ہے جو نہ قرآن میں صراحتاً مذکور ہیں نہ حدیث میں یا ذخیرہ احادیث میں اس کے متعلق متضاد روایات ملتی ہیں، ایسے احکام میں علماءمجتہدین قرآن و سنت کے منصوصات اور زیر غور مسئلہ کے نظائر میں غور و فکر کر کے ان کا حکم تلاش کرتے ہیں ان احکام کی اطاعت بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے قرآن و سنت سے مستفاد ہونے کی وجہ سے اطاعت خداوندی ہی کی ایک فرد ہیں، مگر ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ فقہی فتاوی کہلاتے ہیں اور علماء کی طرف منسوب ہیں _

اسی تیسری قسم میں ایسے احکام بھی ہیں جن میں کتاب و سنت کی رو سے کوئی پابندی عائد نہیں، بلکہ ان میں عمل کرنے والوں کو اختیار ہے جس طرح چاہیں کریں، جن کو اصطلاح میں مباحات کہا جاتا ہے، ایسے احکام میں عملی انتظام حکام و امراء کے سپرد ہے کہ وہ حالات اور مصالح کے پیش نظر کوئی قانون بنا کر سب کو اس پر چلائیں، مثلاً شہر کراچی میں ڈاک خانے پچاس ہوں یا سو، پولیس اسٹیشن کتنے ہوں، ریلوے کا نظام کس طرح ہو، آباد کاری کا انتظام کن قواعد پر کیا جائے یہ سب مباحات ہیں، ان کی کوئی جانب نہ واجب ہے نہ حرام بلکہ اختیاری ہے، لیکن یہ اختیار عوام کو دے دیا جائے تو کوئی نظام نہیں چل سکتا، اس لئے نظام کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔

آیت مذکورہ میں *"اولوالامر"* کی اطاعت سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے، اس لئے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام و امراء کی اطاعت واجب ہو گئی۔

یہ اطاعت بھی درحقیقت اللہ جل شانہ کے احکام ہی کی اطاعت ہے، لیکن ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ احکام نہ قرآن میں ہیں نہ سنت میں، بلکہ ان کا بیان یا علماء کی طرف سے ہو یا حکام کی طرف سے اس لئے اس اطاعت کو تیسرا نمبر جداگانہ قرار دے کر *"اولی الامر"* کی اطاعت نام رکھا گیا اور جس طرح منصوصات قرآن میں قرآن کا اتباع اور منصوصات رسول میں رسول کا اتباع لازم و واجب ہے، اسی طرح غیر منصوص فقہی چیزوں میں فقہاء کا اور انتظامی امور میں حکام و امراء کا اتباع واجب ہے، یہی مفہوم ہے اطاعت اولی الامر کا_

((معارف القرآن ج ٢ ص ٤٥٠ - ٤٥٢ ،تفسیرات احمدیہ ص ١٩٢ ،تفسیر ابن کثیر اردو ج ١ ص ٥٤، پ ٥ سورہ نساء آیت ٥٩))
▬▭▭▭▭▭▭▭▭▭▬
عصمت خان قاسمی پاتورڈوی -
211 viewsIsmat Khan qasmi, 03:40
باز کردن / نظر دهید
2020-10-28 05:57:38 * "اُوْلِیْ الاَمْر" کون لوگ ہیں؟ *

*یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا* ﴿سورۃ النساء /۵۹﴾

*ترجمہ :* اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی۔ (٤١) پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے_(توضیح القرآن ج ١ ص ٢٧٣)


*تفسير :* *" اُوْلِیْ الْاَمْرِ"* لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے، جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام و انتظام ہو، اسی لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت مجاہد اور حضرت حسن بصری وغیرہ رحمہم اللہ ، مفسرین قرآن نے *"اُوْلِیْ الْاَمْرْ"* کے مصداق علماء و فقہاء کو قرار دیا ہے کہ وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب ہیں اور نظام دین ان کے ہاتھ میں ہے_

اور ایک جماعت مفسرین نے جن میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ *"اُوْلِیْ الْاَمْرْ "* سے مراد حکام اور امراء ہیں جن کے ہاتھ میں نظام حکومت ہے_

اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ لفظ دونوں طبقوں کو شامل ہے، یعنی علماء کو بھی اور حکام و امراء کو بھی، کیونکہ نظام امر، انہیں دونوں کے ساتھ وابستہ ہے؛ اس آیت میں ظاہراً تین کی اطاعتوں کا حکم ہے، اللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، اُوْلِی الاَمْر، لیکن قرآن کی دوسری آیات نے واضح فرما دیا کہ حکم و اطاعت دراصل صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہے، *"اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ"* مگر اس کے حکم اور اس کی اطاعت کی عملی صورت چار حصوں میں منقسم ہے_

*حکم اور اطاعت کی تین عملی صورتیں*

ایک وہ جس چیز کا حکم صراحتاً خود حق تعالیٰ نے قرآن میں نازل فرما دیا اور اس میں کسی تفصیل و تشریح کی حاجت نہیں، جیسے شرک و کفر کا انتہائی جرم ہونا، ایک اللہ وحدہ کی عبادت کرنا اور آخرت اور قیامت پر یقین رکھنا اور محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا آخری برحق رسول ماننا، نماز، روزہ، حج، زکوة کو فرض سمجھنا ، یہ وہ چیزیں ہیں جو براہ راست احکام ربانی ہیں، ان کی تعمیل بلاواسطہ حق تعالیٰ کی اطاعت ہے_

دوسرا حصہ احکام کا وہ ہے جس میں تفصیلات و تشریحات کی ضرورت ہے، ان میں قرآن کریم اکثر ایک مجمل یا مبہم حکم دیتا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کی جاتی ہے، پھروہ تفصیل و تشریح جو آنحضرت (صلی اللہ ،علیہ وآلہ وسلم) اپنی احادیث کے ذریعہ فرماتے ہیں وہ بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے _

((معارف القرآن جلد ٢ ص٤٥٠ - ٤٥١، فوائد عثمانی مع ترجمہ شیخ الہندص ١١٤، تفسیرات احمدیہ ص ١٩٢ ،احکام القرآن جصاص ج٢ ص ٤٦٦ ،احکام قرآن تھانوی ج ٢ص ٢٩١ ،احکام القرآن قرطبی ٣ جزء ٥،ص ١٦٧ - ١٦٨))

( جاری............)
========================
پیشکش :عصمت خان قاسمی پاتورڈوی
175 viewsIsmat Khan qasmi, 02:57
باز کردن / نظر دهید
2020-10-27 07:20:10 * تعارف سورہ عنکبوت *

یہ سورت مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی تھیں، بعض مسلمان ان تکلیفوں کی شدت سے بعض اوقات پریشان ہوتے اور ان کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالی نے ایسے مسلمانوں کو بڑی قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے مومنوں کے لیے جو جنت تیار فرمائی ہے وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہو جائے۔ ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں، اور آخر کار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہے گی، اور غلبہ اسلام اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہو گا۔ اسی پس منظر میں اللہ تعالی نے اس سورت میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا ہے کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخر کار اللہ تعالی نے ظالموں کو برباد کیا اور مظلوم مومنوں کو فتح عطا فرمائی۔ مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین کفر پر بضد رہے، اور اپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین و مذہب کے معاملے میں بھی ان کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ اس سورت کی آیت نمبر ٨ میں اللہ تعالی نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے، لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ جن مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم و ستم ناقابل برداشت ہو رہا تھا، ان کو اس سورت میں نہ صرف اجازت، بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ ساتھ اپنے دین پر عمل کر سکیں۔ بعض کافر لوگ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو ، اور اگر اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالی کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے۔ اس سورت کی آیات ۱۲ و ۱۳ میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کر دی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ اس کے علاوہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں جو اعتراضات کا فروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔
*"عنکبوت"* عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر ۴۱ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کر رکھا ہو، اس لئے اس سورت کا نام سوره عنکبوت ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں انہتر آیتیں اور سات رکوع ہیں _


《 آسان ترجمہ قرآن ص ١٢٠٠- ١٢٠١ ج ٢ مکتبہ معارف القرآن کراچی》

پیشکش : عصمت خان قاسمی پاتورڈوی -
149 viewsIsmat Khan qasmi, 04:20
باز کردن / نظر دهید
2020-10-26 05:16:14 * ((تعارف سورة التغابن)) *

اگرچہ بعض مفسرین نے اس سورت کی کچھ آیتوں کو مکی اور کچھ کو مدنی کہا ہے ؛ لیکن اکثر مفسرین نے پوری سورت کو مدنی قراردیا ہے، البتہ اس کے مضامین مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کی دعوت پر مشتمل ہیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے حوالے سے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی گئی ہے، اور پچھلی امتوں کی تباہی کے اسباب بتاتے ہوئے توجہ دلائی گئی ہے کہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کے رسول برحق اور ان پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لاکر آخرت کی تیاری کرنی چاہیے، اور اگر انسان کے بیوی بچے اس راستے میں رکاوٹ بنیں تو سمجھنا چاہیے کہ وہ انسان کی خیر خواہی نہیں، دشمنی کررہے ہیں، سورت کا نام آیت نمبر : ٩ سے ماخوذ ہے جس کی تشریح اسی آیت کے حاشیے (حاشیہ نمبر١) میں آرہی ہے_

《آسان ترجمہ قرآن ص ١٧٤٦ ج٣ مکتبہ معارف القرآن 》


عصمت خان قاسمی پاتورڈوی _
150 viewsIsmat Khan qasmi, 02:16
باز کردن / نظر دهید
2020-10-25 08:34:03 * [قیامت کے دن کو یوم التغابن سے تعبیر کرنے کی وجہ] *
فرمان الٰہی ہے :

*یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ* ﴿سورۃ التغابن/۹﴾

*ترجمہ :* (یہ دوسری زندگی) اس دن (ہوگی) جب اللہ تمہیں روز حشر میں اکٹھا کرے گا۔ وہ ایسا دن ہوگا جس میں کچھ لوگ دوسروں کو حسرت میں ڈال دیں گے۔ اور جو شخص اللہ پر ایمان لایا ہوگا، اور اس نے نیک عمل کیے ہوں گے، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔

*تفسیر :* قرآن کریم نے یہاں تغابن کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو نقصان یا حسرت میں مبتلا کریں،
قیامت کے دن کو تغابن کا دن اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن جو لوگ جنت میں جائیں گے دوزخی لوگ انہیں دیکھ کر حسرت کریں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں ان جنتیوں جیسے عمل کئے ہوتے تو آج ہم بھی جنت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے- حضرت شاہ عبدالقادر صاحب (رحمہ اللہ) نے اس کا ترجمہ "ہار جیت کا دن" کیا ہے، جو مفہوم کو اختصار کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔

((آسان ترجمہ قرآن صـ ١٧٤٨ - ١٧٤٩ ج ٣ مکتبہ معارف القرآن کراچی))
_____________________
راقم : عصمت خان قاسمی پاتورڈوی -
157 viewsIsmat Khan qasmi, 05:34
باز کردن / نظر دهید