2020-11-02 15:09:39
* {{ایک جامع ترین آیت}} *
*اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ* ﴿ النحل /۹۰﴾
☜ *ترجمہ :* بےشک الله تعالیٰ اعتدال اور احسان اور اہل قرابت کو دینے کا حکم فرماتے ہیں اور کھلی برائی اور مطلق برائی اور ظلم کرنے سے منع فرماتے ہیں الله تعالیٰ تم کو اس کے لیے نصیحت فرماتے ہیں کہ تم نصیحت قبول کرو ۔ (بیان القرآن)
▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬
☜ *تفسير:* یہ آیت قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے اسی لئے سلف صالحین کے عہد مبارک سے آج تک دستور چلا آرہا ہے کہ جمعہ وعیدین کے خطبوں کے آخر میں یہ آیت تلاوت کی جاتی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی جامع ترین آیت سورۃ نحل میں یہ ہے (آیت) اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ الخ (ابن کثیر)
اور حضرت اکثم بن صفی تو اسی آیت کی بناء پر اسلام میں داخل ہوئے امام ابن کثیر نے حافظ حدیث ابو یعلی کی کتاب *"معرفۃ الصحابہ"* میں سند کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ اکثم بن صیفی اپنی قوم کے سردار تھے جب ان کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت اور اشاعت اسلام کی خبر ملی تو ارادہ کیا کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوں مگر قوم کے لوگوں نے کہا کہ آپ ہم سب کے بڑے ہیں آپ کا خود جانا مناسب نہیں اکثم نے کہا کہ اچھا تو قبیلہ کے دو آدمی منتخب کرو جو وہاں جائیں اور حالات کا جائزہ لے کر مجھے بتلائیں یہ دونوں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اکثم بن صیفی کی طرف سے دو باتیں دریافت کرنے کے لئے آئے ہیں اکثم کے دو سوال یہ ہیں ۔
*"مَنْ اَنْتَ وَمَااَنْتَ"* ۔ آپ کون ہیں اور کیا ہیں ۔
آپ نے ارشاد فرمایا کہ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کارسول ہوں اس کے بعد آپ نے سورہ نحل کی یہ آیت تلاوت فرمائی *"اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَان الایۃ"* ان دونوں قاصدوں نے درخواست کی کہ یہ جملے ہمیں پھر سنائیے آپ اس آیت کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ ان قاصدوں کو آیت یاد ہو گئی قاصد واپس اکثم بن صیفی کے پاس آئے اور بتلایا کہ ہم نے پہلے سوال میں یہ چاہا تھا کہ آپ کا نسب معلوم کریں مگر آپ نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی صرف باپ کا نام بیان کر دینے پر اکتفاء کیا مگر جب ہم نے دوسروں سے آپ کے نسب کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ بڑے عالی نسب شریف ہیں اور پھر بتلایا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کچھ کلمات بھی سنائے تھے وہ ہم بیان کرتے ہیں ۔
ان قاصدوں نے آیت مذکورہ اکثم بن صیفی کو سنائی آیت سنتے ہی اکثم نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکارم اخلاق کی ہدایت کرتے ہیں اور برے اور رذیل اخلاق سے روکتے ہیں تم سب ان کے دین میں جلد داخل ہوجاؤ تاکہ تم دوسرے لوگوں سے مقدم اور آگے رہو پیچھے تابع بن کر نہ رہو (ابن کثیر )
اسی طرح حضرت عثمان بن مظعون (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ شروع میں میں نے لوگوں کے کہنے سننے سے شرما شرمی اسلام قبول کرلیا تھا مگر میرے دل میں اسلام راسخ نہیں تھا یہاں تک کہ ایک روز میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا اچانک آپ پر نزول وحی کے آثار ظاہر ہوئے اور بعض عجیب حالات کے بعد آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قاصد میرے پاس آیا اور یہ آیت مجھ پر نازل ہوئی حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کو دیکھ کر اور آیت سن کر میرے دل میں ایمان مظبوط اور مستحکم ہوا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میرے دل میں گھر کر گئی (ابن کثیر نے یہ واقعہ نقل کر کے فرمایا کہ اسناد اس کی جید ہے)
اور جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت ولید بن مغیرہ کے سامنے تلاوت فرمائی تو اس کا تاثر یہ تھا جو اس نے اپنی قوم قریش کے سامنے بیان کیا۔
واللہ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ وان اصلہ لمورق واعلاہ لثمروما ہو بقول بشر : خدا کی قسم اس میں ایک خاص حلاوت ہے اور اس کے اوپر ایک خاص رونق اور نور ہے اس کی جڑ سے شاخیں اور پتے نکلنے والے ہیں اور شاخوں پر پھل لگنے والا ہے یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
((معارف القرآن ج ٥ ص ٣٨٧-٣٨٨ معراج بک ڈپو دیوبند))
▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬
راقم : عصمت خان قاسمی پاتورڈوی
242 viewsIsmat Khan qasmi, 12:09