Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 10

2021-09-02 02:46:09 آج کی پوسٹ ان دیہاڑی داورں کے نام!!

جو ہفتے میں ایک دفعہ اپنی بیٹی کا پسندیدہ انڈے والا بند کباب لاتے ہیں اور ساتھ اعلان بھی کرتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ کھانا تو بس روٹی اور چٹنی ہے..

آج کی یہ پوسٹ ان عظیم مردوں کے نام!!

جو رات کو اپنے چھالے بھرے ہاتھوں سے اپنی ماں.بیٹی.بہن.بیوی کیلۓ گرما گرم مونگ پھلی لاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگاکر کہتے ہیں.تم.لوگ کہاؤ میں تو راستے میں کہاتا آیا ہوں..

آج کی پوسٹ ان عظیم جوانوں کے نام!!

جو شادی کے کچھ ہی دنوں بعد پردیس کی فلائٹ پکڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کا A T M بن جاتے ہیں .جنہیں اپنی بیوی کی جوانی اور بچوں کا بچپن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا..

آج کی پوسٹ ان کسانوں کے نام!!

جو دسمبر کی برستی بارش میں سر پہ تھیلا لۓپگڈ نڈی پھر کر کسی کھیت سے پانی نکالتے ہیں اور پانی ڈالتے ہیں..

آج کی پوسٹ میرے والد صاحب کے نام

جنہوں نے مجھے زندگی دی اور زندگی بہتر بنا کر بھی دی..

آج کی پوسٹ ہر اس نیک.نفس ایماندار اور محبت کرنے والے باپ.بھایئ.شوہر اور بیٹے کے نام
جو اپنے لیۓ نہیں اپنے گھر والوں کیلۓ کماتے ہیں..
جن کا کویئ عالمی دن نہیں ہوتا..
مگر ہر دن ان کیلۓ عالمی دن ہوتا ہے..
Copy.
92 views23:46
باز کردن / نظر دهید
2021-09-02 01:03:39 *(بھٹکی ہوئی گائے !!!*)

ایک گائے راستہ بھٹک کر جنگل کی طرف نکل گئی،
وہاں ایک شیر اس پر حملہ کرنے کیلئے دوڑا۔
گائے بھاگنے لگی،
شیر بھی اُس کے پیچھے دوڑتا رہا۔
گائے بھاگتی بھاگتی بالآخر ایک دلدلی دریا میں چھلانگ لگا دیا،
شیر نے بھی اس کے پیچھےچھلانگ لگایا لیکن گائے سے کچھ فاصلے پر ہی دلدل میں پھنس گیا،
اب وہ دونوں جتنا نکلنے کی کوشش کرتے دلدل میں اُتنا ہی پھنستے جاتے بالآخر گائے اور شیر دونوں ہی گلے تک دلدل میں پھنس گئے،
ایسے میں شیر غصے سے بَھنَّاتا ہوا ڈہاڑا: ’’ بدتمیز گائے! تجھےچھلانگ لگانے کیلئے اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی ، کوئی اور جگہ ہوتی تو تجھے چیر پھاڑ کر کھاتا اور صرف تیری جان جاتی ‘ میں تو بچ جاتا لیکن اب تو ہم دونوں ہی مریں گے‘‘
گائے ہنس کر بولی:’’ جناب شیر ! آپ کا کیا کوئی مالک ہے‘‘
شیر مزید غصے سے تِلملاتا ہوا ڈہاڑا: ’’ تیری عقل پر پتھر ! میرا کہاں سے مالک آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں تو خود ہی اس جنگل کا بادشاہ ہوں، اس جنگل کا مالک ہوں۔‘‘
گائے کو پھر ہنسی آگئی ، کہنے لگی: بادشاہ سلامت ! یہیں پر آپ کمزور ہیں ، نہایت ہی کمزور۔ میرا ایک مالک ہے ، جو کچھ ہی دیر میں مجھے ڈھونڈھتا ہوا یہاں آجائے گا اور مجھے نکال کر لے جائے گا اور آپ کو مار ڈالے گا،
پھر گائے زور زور سے آوازیں نکال کر اپنے مالک کو اپنی طرف اپنی نجات کیلئے پکارنے لگی۔
ٹھیک شام کےقریب چرواہا اپنے گائے کو ڈھونڈھتا ہوا آیا ، شیر کو مار ڈالا اور گائے کو نکال کر لے گیا،

آج ہم مسلمان بھی اُس گائے کی طرح بھٹک گئے ہیں اور شیر نما دشمن ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔
جبکہ ہمارا بھی خالق ہے ، ہمارا بھی مالک ہے، جو زبردست اور حکمت والا ہے اور وہ ہمیں دشمنوں کی ظلم و بربریت سے نجات دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔
لیکن ہم اپنے زبردست اور قدرت والے مالک کو پکارنے کے بجائے دشمن کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں، دشمن کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں، اور دلدل کی مزید گہرائی میں پھنستے جا رہے ہیں۔
جبکہ ہمارا خیر خواہ اور مددگار صرف اور صرف ہمارا اللہ ہے:
بَلِ اللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ ﴿١٥٠﴾آل عمران
’’ بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگارہے۔‘‘
ہم دعا کرتے ہیں:
اے اللہ تو ہی ہمارا خیرخواہ اور مدد گار ہے۔
اے اللہ ہم مانتے ہیں کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں ، بھٹک گئے ہیں۔
اے اللہ پھر بھی ہم تجھے ماننے والے ہیں، تجھے اپنا خالق ، مالک اور رب مانتے ہیں۔
اے اللہ تو خیرالناصرین ہے یعنی سب سے بہترین مدد کرنے والا ہے، اپنی رحمت سے مدد فرما، نصرت فرما ، اس بھٹکی ہوئی امت کو راہِ راست دِکھا دے۔ کوئی ایسا نیک و صالح لیڈر پیدا فرما دے جو اس بھٹکی ہوئی امت کو راہِ راست پر لانے کا کام کرے، جو فرقہ واریت ختم کرکے اس امت کو متحد کرے اور ظالم دشمنوں کی ظلم و بربریت سے نجات دلا کر تیرے پیارے رسول ﷺ کی امت کو غالب کرے، جسے ہر قدم پر تیری نصرت و تائید حاصل ہو کیونکہ تیری مدد و نصرت کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ اے اللہ ہماری ان دعاؤں کو قبول کر لے آمین ۔۔۔۔۔۔
94 views22:03
باز کردن / نظر دهید
2021-08-31 03:48:44 اگر کوئی اَن پڑھ یا کم پڑھی لکھی لڑکی شادی کے بعد اپنے سسرال میں خوش رہتی ہے...
اگر وہ اپنی بوڑھی ساس کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد کچھ کھانے کو دیتی ہے
اگر وہ سسر کے سونے پر اپنے بچوں کو شور کرنے سے روکتی ہے
اگر وہ اپنی نندوں کی شادی پر اپنے جہیز کا سامان دیتی ہے.
اگر وہ خاوند کے گھر آنے پر مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتی ہے اور اس کی تواضع ٹھنڈے مشروب سے کرتی ہے
تو میرے خیال میں وہ ان پڑھ نہیں بلکہ ماسٹرز ان سائیکلوجی ہے.
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ ایک بار پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتی اور اسے بار بار بھوک لگتی ہے.
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ بوڑھاپے میں غصہ جلدی آتا ہے اور نیند ٹوٹنے پر تو بے حد آتا ہے
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا سسرال بہت سی چیزیں خریدنا افورڈ نہیں کر سکتا.
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میرا شوہر باہر کے سرد و گرم سے نبرد آزما ہو کے آ رہا ہے.
اگر ہر لڑکی اسی طرح اپنے سسرال میں موجود افراد کی نفسیات سمجھ لے اور مشکلات کو تدبر سے حل کرنے لگےتو بہت سے مسائل جنم لینے سے پہلے ہی وفات پا جائیں اور خوشیوں کی پھوار ہر سمت سے برسنے لگے.
لیکن سوال صرف یہ نہیں کہ کیا ہم اپنے گھروں کا ماحول ایسا بنا سکتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم اپنی بیٹی کی تربیت اس نہج پہ کر سکتے ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یاد رکھیے۔۔۔۔ ایک دن آپ کی بہو بھی ایسی ہی آ جائے گی۔
12 views00:48
باز کردن / نظر دهید
2021-08-30 03:01:31 چالیس سال گزر گئے ہیں اس بات کو، لیکن مجھے آج بھی اس دکاندار اور اس دکاندار کے بیٹے کی شکل ہر زاویئے سے یاد ہے۔

جیسے ہی میرا مڈل سکول کا نتیجہ اخباروں میں چھپا، میرے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ حالانکہ میں نے کوئی معرکہ بھی نہیں مارا تھا۔ بس آٹھویں جماعت کو فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا تھا۔ لیکن مجھے کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا کہ اپنی خوشی کا کیسے اظہار کروں۔

دوسرے دن میں نے منصوبہ بنایا کہ اپنے قصبے "سویداء" سے "دمشق" جا کر سیر کر کے آتا ہوں۔ میرے لیئے امتحان میں پاس ہونے کا اس سے بڑا جشن نہیں ہو سکتا تھا۔ میری جیب میں ایک "لیرے" کا سکہ تھا اور پانچ لیرے کا کڑکتا نوٹ۔ میں نے سیدھا بس کے اڈے پر جا کر دم لیا۔ بس والے نےسکے والا ایک لیرا کرایہ لے لیا، باقی کے پانچ لیرے میرے جیب میں موجود تھے۔ میں نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ ان پیسوں سے دمشقی مٹھائی گھر لے کر جاؤنگا اور مزے کرونگا۔ میرا شامی کیک خریدنے کا تو پکا ارادہ تھا۔

دمشق کے بازار ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت۔ الصالحیہ بازار اور الحمیدیہ بازار کی تو کیا ہی بات تھی۔ وہیں جابی گیٹ کے پاس مجھے مٹھائی کی ایک بڑی دکان نظر آئی۔ میں نے اندر جا کر دکاندار سے، جس کے پہلو میں اس کا ایک بیٹا بھی بیٹھا ہوا تھا، کلو کیک، کلو برازق اور ایک کلو غُرائیبہ مانگا۔ لیکن جیسے ہی پیسے دینے کیلیئے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب خالی تھی، میرے پانچ لیرے جیب میں نہیں تھے۔

میری حالت دیدنی تھی اور شاید میرے چہرے سے یاسیت بھی نظر آ رہی ہو گی۔ میں نے دکاندار سے معذرت کرتے ہوئے کہا: جناب، میں کچھ دیر بعد آوںگا اپنا سامان اٹھانے کیلیئے۔

دکاندار نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا

پیسے گھر بھول آئے ہو؟

میں نے کہا:

نہیں پیسے تو میری جیب میں ہی تھے۔ پورے پانچ لیرے کا ایک ہی نوٹ تھا،

کدھر رہتے ہو؟ دکاندار نے پوچھا۔

سویداء میں رہتا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔

اچھا، ادھر آؤ، پہلے ذرا بیٹھ لو، تھوڑا آرام کرو۔

پھر اس نے چائے کا ایک کپ مجھے بھر کر پکڑاتے ہوئے کہا؛ میرے بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیو۔

اتنی دیر میں دکاندار نے جو میرا سامان تول کر رکھا تھا، لفافوں میں پیک کر کے مجھے دیتے ہوئے کہا: یہ لو تمہارا سامان، جب کبھی دوبارہ دمشق آنا تو پیسے دے جانا۔

میں نے انکار کرتے ہوئے کہا: سیدی ، میں نے اتنی جلدی دوبارہ دمشق نہیں آنا۔ اور پھر یہ چیزیں کوئی ضروری بھی نہیں ہیں۔ معذرت کے ساتھ، میں اب یہ نہیں خریدنا چاہتا، آپ رہنے دیجیئے۔ آپ کا شکریہ۔

دکاندار نے کہا: بیٹے، تم دمشق ضرور آؤ گے۔ اور مجھے یہ بھی پورا یقین ہے کہ تم میرے پیسے بھی ضرور واپس کروگے۔

اور اس کے ساتھ ہی دکاندار نے اصرار کر کے مجھے سامان اٹھوا دیا۔

میں سامان لیکر شرمندہ شرمندہ دکاندار اور اس کے بیٹے کو سلام کر کے باہر نکلا۔ ابھی چند قدم ہی دور گیا ہونگا کہ دکاندار کا بیٹا مجھے پیچھے سے آوازیں دیتا ہوا دکھائی دیا۔

میں رک گیا، دکاندار کے بیٹے نے مجھۓ آ کر بتایا کہ ابو کو تمہارے پانچ لیرے دکان میں گرے ہوئے مل گئے تھے۔ لگتا ہے تم نے جب جیب میں ہاتھ ڈالا ہوگا تو نیچے گر پڑے ہونگے۔

ابو نے اپنی مٹھائیوں کے پیسے کاٹ لیئے ہیں اور یہ رہے تمہارے باقی کے پیسے۔

میری خوشی دیدنی تھی۔ کہاں میں ادھار کے بوجھ تلے دبا یہ سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ چلو سامان تو ٹھیک ہے مگر سویداء جانے کا کرایہ کس سے مانگوں گا۔ اور کہاں اب یہ ادھار چکتا ہو گیا تھا، کسی کے آگئے ہاتھ پھیلائے بغیر کرائے کے پیسے نکل آئے تھے اور میں ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔

میں نے دکاندار کے بیٹے کا شکریہ ادا کیا۔ اسے اپنے ابو کو جا کر میری طرف سے شکریہ ادا کرنے کا کہا، باقی کے پیسے جیب میں ڈالے اور اڈے کی طرف چل پڑا۔

گھر جا کر کپڑے تبدیل کرنے کیلیئے میں نے جیسے ہی اپنی پرانی والی پتلون پہنی تو مجھے اپنے پانچ لیرے کا نوٹ اسی کی جییب میں مل گیا۔

ابا جی کو ساری قصہ کہہ سنایا۔ سن کر مسکرا دیئے اور کہنے لگے۔

پُتر، یہ لوگ شام کے تاجر ہیں۔ جدی پشتی تجارت پیشہ لوگ۔ ان کو انسانیت کے سارے معانی اور مطلب آتے ہیں۔ بہر حال پانچ لیرہ تیرے اوپر قرض ہے۔ اپنی امی سے کہہ، کل پرسوں تجھے میٹھے ڈھوڈھے بنا دے، ہماری طرف سے ھدیہ لیتا جا، پانچ لیرہ قرض بھی اتارنا، ہماری طرف سے شکریہ ادا کرنا اور ہماری طرف سے سلام بھی کہنا۔

اگلے ہفتے میں نے امی سے میٹھی روٹیاں پکوا کر، اور پانچ لیرہ قرضہ چکانے کیلیئے لیکر دمشق کی راہ لی۔

دکاندار نے جیسے ہی مجھے دیکھا، ہنس دیا اور کہنے لگا: میں نہیں کہتا تھا کہ تو جلد ہی دمشق واپس آئیگا۔ یہ ایک کلو ھریسہ میری طرف سے واپس لیتے جانا اور سویداء کے لوگوں کو میرا سلام کہہ دینا۔

کہتا ہے: آج بھی جب میں کسی تاجر کو دیکھتا ہوں تو دل فوراً ہی نسلی تاجر اور فصلی تاجر کا موازنہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔
91 views00:01
باز کردن / نظر دهید
2021-08-29 23:36:14 اشفاق مرحوم فرماتے ہیں:-
میں اپنے مُرشد کے حکم سے چلہ کشی کرتا ہوں, عبادت کی چاشنی کیلیے لیکن اسکے لیے تنہائی چاہیے ہوتی ھے تو میں جنگلوں کا رُخ نہیں کرتا کیونکہ جنگل صوفیاء اور ولی پیدا کرتے ہیں ۔میں صحراوں کا رُخ کرتا ہوں کیونکہ صحراوں نے نبی پیدا کیے تو میں انبیاء کی سنت میں صحرا میں عبادت کے مزے لیتا ہوں. وہ فرماتے ہیں کہ سندھ میں صحرائے تھر میں کسی مقام پر ڈیرا لگا رکھا تھا لیکن بستیوں کے قریب تھا. ایک بستی سے بہت سے لوگ نکلتے بکریاں جانور چرانے جاتے کچھ شہر کو جاتے کچھ مختلف اجناس بیچنے جاتے
اُن ہی لوگوں میں ایک نو عمر لڑکا پندرہ سولہ سال کا سر پر تربوز کا ٹوکرہ رکھ کر نکلتا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک نّنھی بچی جسکی عمر پانچ چھ سال ہوگی وہ چلتی میں
پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں باپ مرچکے ہیں اس لیے یہ لڑکا تربوز اور کبھی خربوزے دوسری بستیوں میں جا کر بیچتا ھے اور بہن کو بھی ساتھ رکھتا ھے گھر اکیلے نہیں چھوڑتا.
ایک دن صبح اشفاق صاحب نے اسے بُلایا اور پوچھا کہ ایک بات بتاؤ, تم جب جاتے ہو اور واپس آتے ہو تمہاری بہن تمہارے پیچھے چلتی ھے حالانکہ اسے تمہارے آگے تمہاری آنکھوں کے سامنے چلنا چاہیے اس طرح یہ تمارے دھیان میں رہے گی. اس پر اُس لڑکے نے جو جواب دیا وہ جگر چھلنی کر گیا. کہنے لگا جناب آپکو پتا ھے گرمی سخت ھے اور سورج آگ برساتا ھے۔
" جب میں سرپر ٹوکرا رکھ کرچلتا ہوں تو ٹوکرے سمیت میرا سایہ بہت بڑا بنتا ھے ۔میں چاہتا ہوں کہ میری بہن میری بن ماں باپ کے یہ بہن ۔میرے سایے میں رہے ۔ میرے سائے میں چلے ۔اور دھوپ سے بچی رہے".
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ آنسو تو رکے نہ رکتے تھے, ساتھ آہیں بھی نکل پڑیں۔ اُس صحرائی بچے کے یہ جملے سن کر. بس اس ان پڑھ نو عمر بچے نے عبادت کے ڈھنگ, بہنوں کے حقوق, چھوٹوں پر شفقت, یتیم کی رکھوالی اور انسانیت, سب کچھ ان دو جملوں میں سمجھادیا۔ یہ ہوتا ھے پرکٹیکل یہ ہوتا ھے عمل اور ایسے لوگ صحرا ہی پیدا کر سکتا ھے۔
6 views20:36
باز کردن / نظر دهید
2021-08-29 03:36:56 زیادہ پرانی بات نہیں
سات ، آٹھ سال پہلے کی بات ہے
میاں صاحب نے ریٹائر منٹ لی، گھر بیٹھے تو میرا گھریلو ٹائم ٹیبل اچھا خاصا متاثر ہو گیا
بہت سالوں سے روٹین ایسی تھی کہ فجر پڑھنے سے پہلے ہی ناشتہ بنادیا۔بچیاں اٹھ کے تیار یوئیں۔ناشتہ خود ہی اٹھایا اور کر لیا
ان دنوں دونوں بیٹے پاکستان سے باہر اپنی پڑھائی کے سلسلے میں تھے
بچیاں اپنےسکولوں کالجز کو چلی جاتیں، میں فجر پڑھ کے وہیں بیٹھے تلاوت اور تسبیحات وغیرہ بڑھتی رہتی یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہو جاتا
اشراق کے بعد نفل حاجت سارے بچوں کیلئے پڑھتی جونہی میاں صاحب کا بنک کا وقت ہوتا میں اٹھتی اور انکا ناشتہ بناتی، انہیں تیا ہونے میں مدد دیتی
تب تک سرداراں بھی آجاتی تو دن کے باقی معمولات رواں دواں ہو جاتے
میاں صاحب کے دل نے کچھ عرصے سے دل لگیاں شروع کردیں
غلط نہ سمجھیں دل نے کبھی کبھی دل ڈرانا شروع کیا ہوا تھا، کبھی دھڑکن تیز، تو کبھی بلڈ پریشر تیز
آخر ایک دن خون کا لوتھڑا ایسا پھنسا کہ دل کو چیرتا ہوا نکلتا چلا گیا
یہ ایسا اچانک ہارٹ اٹیک تھا جس سے بچ جانا اللہ کی خاص رحمت تھی اور میری پھپھو(ساس) کی دعائیں تھیں
مجھے یاد ہے جب میری نئی نئی شادی ہوئی تو اکثر شام کی نماز کے بعد پھپھو نے مجھے پوچھنا
،روبی وہ تمھارے چچا زاد بھائی قدیر کے بیٹے کا نام کیا ہے؟؟
میں نے بتانا پھپھو، عمر دراز نام ہے انکے بیٹے کا۔۔ آپ ہر روز اسی ٹائم پوچھتی ہیں، روز بھلا دیتی ہیں
ایک دن میں نے نام بتایا اور خود نوٹ کرنا شروع کیا کہ اب کرتی کیا ہیں
تو انہوں نے نام دہرانے کے بعد نماز کی نیت باندھی
،، نیت کرتی ہوں دو رکعت نماز نفل عمردرازی کے اپنے بیٹے کیلئے۔منہ طرف خانہ کعبہ شریف کے،
اللہ اکبر
مجھے ان پہ اتنا پیار آیا کہ بیان سے باہر
انہیں لفظ ،،عمردرازی،، بھول جاتا تھا تو انہوں نے یہ طریقہ اپنایا
تو بس یہ انکی دعائیں تھیں کہ سخت ہارٹ اٹیک سے بچا کے اللہ نے میاں صاحب کو نئی زندگی عطا فرمائی
لیکن اب بچے ابو کو جاب نہیں کرنے دے رہے تھے
کہ بنک کی جاب اچھی خاصی مشکل ہے اور توجہ مانگتی ہے اور آنا جانا بھی مشکل
یوں انہوں نے کافی سال پہلے ریٹائرمنٹ لے لی
بچے تو اپنی روٹین میں دوبارہ مصروف ہو گئے ۔ لیکن میری روٹین بہت خراب ہو گئی
میں میاں صاحب کو اس بات سے بچانا چاہتی تھی کہ اب وہ فارغ ہیں تو ،منفی باتیں سوچیں
میں ہر وقت انکے ساتھ ساتھ رہنے کی کوشش کرتی
ایک تو ہارٹ اٹیک کی دوائیوں سے وہ بہت کمزور ہو گئے تھے، دوسرا فارغ رہنا بذات خود بہت بڑی بیماری
اس لئے اب فجر کے بعد کی ساری روٹین ختم ہو گئی
میں صرف نماز پڑھتی دعا کے بعد ان کے پاس آجاتی
بلڈ پریشر چیک کرتی ، تھوڑی بات چیت کرتی اور پھر کچن میں آجاتی
انکا کھانا پرہیزی بنتا شروع ہو چکا تھا ناشتہ بنا کے ساتھ ہی ہلکی آنچ پہ سبزی رکھ دیتی
انہیں ناشتہ کروا کے دوائیاں دیتی۔پھر ہم لوگ گھنٹہ بھر کارڈز کھیلتے۔
اس کے بعد وہ تھوڑی دیر کیلئے گھر سے باہر نکل جاتے
میں اس وقت کا انتظار کر رہی ہوتی تھی، ادھر انہوں نے گھر سے باہر قدم نکالا ادھر میں بھاگم بھاگ وضو کر کے جاے نماز پہ
اب میری چاشت کی روٹین بن چکی تھی
شائد کم لوگ جانتے ہونگے کہ جس طرح رات کو قبولیت کا وقت تہجد ہوتا ہے اسی طرح دن کو قبولیت کا وقت چاشت ہوتا ہے
مجھے کیونکہ چسکا پڑ چکا تھا کہ اللہ کو اپنی ساری باتیں بتانے کا۔ تو مجھے لگتا تھا کہ جیسے اللہ بھی میرا انتظار کر رہے ہونگے۔ اگر میں لیٹ ہو جاتی تو ایک بے چینی سی شروع
میں اسی انتظار میں ہوتی تھی کہ کب میاں صاحب کہیں جانے کیلئے نکلیں
چاشت کے علاؤہ بھی درود پاک بھی زیادہ سے زیادہ جونہی موقعہ ملتا پڑھنے کی کوشش کرتی
اس کے بعد یہ ہوا کہ مجھے بچوں نے موبائل فون گفٹ کر دیا
شوق شوق میں بچوں نے فیس بک پہ اکاؤنٹ بنادیا، وٹس ایپ پہ بھی
ادھر ناشتہ بنایا ادھر بچوں کے ساتھ تصویروں کا تبادلہ شروع
پھر نیا فیشن سٹوری کا۔فیس بک سٹوری، وٹس ایپ سٹوری
ابھی تو شکر ہے کہ انسٹا گرام اور ٹوئیٹر مجھے پسند نہیں

تو اب حالات کچھ یوں ہیں کہ ادھر میاں صاحب نے گھر سے باہر قدم رکھا ادھر ہم نے فیس بک کھول لی، وہاں سے چکر لگا کے، ایک چکر وٹس ایپ کا
پھر اپنے گروپس بھی تو دیکھنے ہوتے
یعنی نہائت بے دردی سے وقت کا ضیاع
یہ نیٹ تو کسی آسیب کی طرح چمٹ گیا اور کسی شیطان کی طرح وقت ضائع کروا رہا

وہ دن بڑے پیارے تھے جب اللہ سے باتیں کرنے کیلئے بے چین رہتے تھے
سارے دکھ سکھ اس رب کو بتا خود ہلکے پھلکے ہو جاتے تھے
اب تو وہ دن خواب ہی ہو گئے
75 views00:36
باز کردن / نظر دهید
2021-08-25 11:36:07 مادری زبان :

رسول حمزہ توف کی شاہکار کتاب میرا داغستان سے ایک اقتباس !

"ایک دفعہ میں پیرس کے ادبی میلے میں شریک ہوا تو وہاں میری آمد کی خبرسن کر ایک مصور مجھ سے ملنے آیا اور کہا :
"میں بھی داغستانی ہوں، فلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں لیکن تیس برس سے یہاں فرانس میں ہوں۔"
داغستان واپسی پر میں نے اس کے عزیزوں اور ماں کو تلاش کیا۔ اس مصور کے بارے میں اس کے خاندان کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ مصور کی ماں یہ خبر سن کر بہت حیران ہوئی۔ اس ماں کو علم ہی نہ تھا کہ اس کا بیٹا ابھی تک زندہ ہے۔ میں نے مصور کی ماں کو یقین دلاتے ہوئے کہا: "آپ کا بیٹا واقعی زندہ ہے اور فرانس میں خوش و خرم ہے۔"
یہ سن کر اس کی ماں بہت روئی۔
اس دوران مصور کے رشتہ داروں نے اس کے وطن چھوڑنے کا قصور معاف کر دیا تھا کیونکہ انہیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ان کا کھویا ہوا عزیز ابھی زندہ ہے۔
مصور کی ماں نے مجھ سے پوچھا:
"بتاؤ ... اس کے بالوں کی رنگت کیسی ہے ؟ اس کے رخسار پر جو تِل تھا کیا اب بھی ہے ؟ اس کے بچے کتنے ہیں ؟"
اور پھر دفعتاً مصور کی ماں نے پوچھا :
’’رسول ! تم نے میرے بیٹے کے ساتھ کتنا وقت گزارا؟‘‘
میں نے کہا: "ہم بہت دیر بیٹھے رہے اور داغستان کی باتیں کرتے رہے۔"
پھر اُس کی ماں نے مجھ سے ایک اور سوال کیا : ’’اُس نے تم سے بات چیت تو اپنی مادری زبان میں کی ہوگی نا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں ازبک بول رہا تھا اور وہ فرانسیسی۔ وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے۔"
مصور کی بوڑھی ماں نے یہ سنا اور سر پر بندھے سیاہ رومال کو کھول کر اپنے چہرے کو چھپا لیا جیسے پہاڑی علاقوں کی ماںُیں اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر اپنے چہروں کو ڈھک لیتی ہیں۔ اس وقت اوپر چھت پر بڑی بڑی بوندیں گر رہی تھیں، ہم داغستان میں تھے، غالباً بہت دُور دنیا کے اُس سرے پر پیرس میں داغستان کا وہ بیٹا بھی جو اپنے قصور پر نادم تھا، آنکھوں سے برستے ان انمول آنسوؤں کی آواز سن رہا ہوگا۔
پھر ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا : ’’رسول ! تم سے غلطی ہوئی۔ میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی۔ جس سے تم ملے وہ میرا بیٹا نہیں ‛ کوئی اور ہو گا کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کس طرح بھلا سکتا ہے جو میں نے اسے سکھائی تھی۔"
میں حیرت اور صدمے سے کوئی جواب نہ دے سکا تو اس بوڑھی عظیم ماں نے کہا: "رسول۔۔۔ اگر وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے تو میرے لئے وہ زندہ نہیں، مر چکا ہے۔"
*
189 views08:36
باز کردن / نظر دهید
2021-08-25 00:28:42 محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“ صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں 'الگنی' بولتے ہیں۔پھر جمیل صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔مثلا گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کیلئے چھوڑا جاتا تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے 'دھنگنا' کہتے ہیں۔گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ 'اگاڑی' 'پچھاڑی' کہلاتی ہیں۔گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ 'لگام' کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی 'راس' کہلاتی ہے۔اس لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کیلئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے 'یک راس گھوڑے کی قیمت' اور ہاتھی کیلئے 'یک زنجیر ہاتھی' استعمال ہوتا تھا۔گھوڑے کو جب ٹریننگ کیلئے سائیسں پھراتا ہے اور جسے 'کاوا پھرانا' بولتے ہیں۔اُس رسی کو جو سائیسں اس وقت پکڑتا ہے اسے 'باگ ڈور' کہتے ہیں۔پھر مرحوم نے کہا بیل کے ناک کے نتھنوں میں جو رسی ڈالتے ہیں اس کو 'ناتھ' بولتے ہیں (اسی لیے ایسے بیل کو 'نتھا ہوا بیل' بولتے ہیں۔اس کے بعد ہی بیل کوہلو یا ہل وغیرہ میں جوتنے کے کام میں آتا ہے)۔اونٹ کی ناک میں 'نکیل' ہوتی ہے اور کنویں سے بڑے ڈول کو یا رہٹ کو بیل کھینچتے ہیں اس میں جو موٹا رسا استعمال ہوتا ہے اسے 'برت' یا 'برتھ' بولتے ہیں۔
(نذر الحسن صدیقی کے محمد سلیم الرحمٰن کے نام خط سے اقتباس)

ترمیم مزید بقلم خود علیم امتیاز

چارپائی جس رسی سے بُنی جاتی ہے اسے 'بان' اور چارپائی کی پائنتی میں استعمال ہونے والی رسی کو 'ادوائن' کہتے ہیں۔پھانسی کیلئے استعمال ہونے والی رسی 'پھندہ' کہلاتی ہے۔
22 views21:28
باز کردن / نظر دهید
2021-08-23 23:55:25 اک ڈاکٹر سے مشورہ لینے کو میں گیا
ناسازیِ مزاج کی کچھ ابتدا کے بعد

کرنے لگے وہ پھر مرا طبّی معائنہ
اک وقفۂ خموشیِ صبر آزما کے بعد

ضرباتِ قلب و نبض کا جب کر چکے شمار
بولے وہ اپنے پیڈ پہ کچھ لکھ لکھا کے بعد

ہے آپ کو جو عارضہ وہ عارضی نہیں
سمجھا ہوں میں تفکرِ بے انتہا کے بعد

لکھا ہے ایک نسخہِ اکسیر و بے بدل
دربارِ ایزدی میں شفا کی دعا کے بعد

لیجے نمازِ فجر سے پہلے یہ کیپسول
کھائیں یہ گولیاں بھی نمازِ عشا کے بعد

سیرپ کی ایک ڈوز بھی لیجے نہار منہ
پھر ٹیبلٹ یہ کھایئے پہلی غذا کے بعد

ان سے خلل پذیر اگر ہو نظامِ ہضم
پھر مکسچر یہ پیجئے اس ابتلا کے بعد
لازم ہے پھر جناب یہ انجیکشنوں کا کورس
اُٹھیں نہ ہاتھ آپ کے گر اس دوا کے بعد

تجویز کر دیئے ہیں وٹامن بھی چند ایک
یہ بھی ضرور لیجئے ان ادویہ کے بعد

پھر چند روز کھائیں یہ ننھی سی ٹیبلٹ
کھجلی اٹھے بدن میں اگر اس دوا کے بعد

چھے ماہ تک دوائیں مسلسل یہ کھایئے
پھر یاد کیجیے گا حصولِ شفا کے بعد

اک وہم تھا کہ دل میں مرے رینگنے لگا
اُن کے بیانِ نسخہِ صحت فزا کے بعد

کیمسٹ کی دکان بنے گا شکم مرا
ترسیلِ ادویات کی اس انتہا کے بعد

میں نے کہا کہ آپ مجھے پھر ملیں گے کب
روزِ جزا سے قبل کہ روزِ جزا کے بعد ۔۔۔۔!

انور مسعود
133 views20:55
باز کردن / نظر دهید
2021-08-23 13:50:54 *حروفِ تہجی کی ترتیب پر اعضاء کے نام*
: *احمدرضا مغل*

منقول ہے کہ ایک روز عبدالملک بن مروان اپنے خواص اور قصہ گو افراد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اس نے کہا: تم میں سے کون ہےجو حروف تہجی کی ترتیب سے بدن کے حصوں کے نام بتائے؟ حضرت سوید بن غفلہ رحمة اللہ علیہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے امیر المومنین میں بتاؤں گا عبدالملک نے کہا: بتاؤ۔ حضرت سوید بن غفلہ رحمة اللہ علیہ کہنا شروع ہوئے:
انف ( ناک )
بطن ( پیٹ )
ترقوة ( ہنسلی کی ہڈی )
ثغر ( اگلے دانت )
جمجمة ( کھوپڑی )
حلق ( حلق )
خد ( رخسار )
دماغ ( دماغ )
ذراع ( بازو )
رقبة ( گردن )
زند ( ہاتھ کا گٹا )
ساق ( پنڈلی )
شفة ( ہونٹ )
صدر ( سینہ )
ضلع ( پسلی )
طحال ( تلی )
ظھر ( پیٹھ )
عین ( آنکھ )
غبب ( آدمی کے گلے کے نیچے لٹکا ہواگوشت )
فم ( منہ )
قفا ( گدی )
کف ( ہتھیلی )
لسان ( زبان )
منخر ( نتھنا )
نغنغ (حلق میں بڑھا ہوا گوشت )
ھامة ( کھوپڑی )
وجه ( چہرہ )
ید ( ہاتھ )
عبدالملک یہ سن کر ہنسا اور کہا؛ بخدا اس سے زیادہ بیان نہیں ہوسکتا، انہیں دے دو جو یہ چاہتے ہیں۔ پھر عبدالملک نے انہیں انعام و اکرام سے نوازا اور ان کے ساتھ خوب احسان کیا۔

یہ تھے ہمارے *بزرگان دین* جنہیں ہرکام انتہائی بخوبی سے آتا تھا جس طرف جاتے کمال مہارت سے کر دکھلاتے تھے۔
161 views10:50
باز کردن / نظر دهید