Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 8

2021-11-04 19:45:05 https://naeemurrhman.blogspot.com/2021/11/blog-post_38.html?m=1

*دیوالی کی رات اور سحر کا زور*
*(سورہ بقرہ کی تلاوت کا اہتمام)*

کہا جاتا ہے کہ دیوالی اور ہولی کی رات برصغیر ہند و پاک میں سب سے زیادہ اعمال سحر کئے جاتے ہیں، اور یہاں کے مقامی شیاطین جن کی پوجا یہاں کی جاتی ہے، ان کی طاقت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔

جادو کی ایک قسم بھان متی کہلاتی ہے جس میں جادوگر متاثرہ شخص کا پتلا بنا کر اس پر عمل کرتا ہے، بھان متی کے جادوگر ہی دیوالی کی رات اپنا جادو جگاتے ہیں، اگر وہ اس رات ناکام رہیں تو پورے سال کیلئے ناکام ہوجاتے ہیں اور ان کو پھر سے اگلی دیوالی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

بعض لوگوں نے تصدیق کی ہے کہ بعض ساحر یہ کام کرتے ہیں، ساؤتھ افریقہ میں یہی جادو "وڈوو Voodoo" کے نام سے معروف ہے۔
اس رات میں سفلی عمل اور سحر وغیرہ عام ہے اور یہ تحقیقی بات ہے، بہت سے مرد و خواتین کو اس رات بہت پریشانی ہوتی ہے، بڑے جسمانی درد اور ذہنی تکلیفوں میں رات گزرتی ہے بلکہ یہ دیوالی کے ایام ہی ان کے لئے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ان کو، اور سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور عافیت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

*دیوالی کی رات سورۃ البقرہ کا اہتمام کئی اعتبار سے بعض علماء نے مفید بتایا ہے۔ اور یوں بھی سورۃ البقرۃ کے پڑھنے کی ترغیب احادیث میں آئی ہے۔ اس لئے جو لوگ پریشان ہیں، مبتلا بہ ہیں انہیں بطور خاص اس سورت کا اہتمام کرلینا چاہیے۔ جادو ٹونا بھی حق ہے، اس کے برے اثرات پڑتے ہیں اور قرآن کی تلاوت اس کا مؤثر توڑ ہے۔*

*معوذتین کا ورد:*
جو شخص معوذتین کو سوتے وقت پڑھے گا، اس پر ہرگز جادو وسحر کا اثر نہ ہوگا۔

*چند کلمات کے اثرات :*
حضرت کعب الاحبارؓ فرماتے ہیں کہ چند کلمات اگر میں نہ کہتا رہتا تو یہود مجھ کو گدھا بنا دیتے۔ کسی نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ انہوں نے یہ بتلائے:
  وہ دعا یہ ہے: أَعُوذُ بِوَجْہِ اللَّہِ الْعَظِیمِ، الَّذِی لَیْسَ شَیْء ٌ أَعْظَمَ مِنْہُ، وَبِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّاتِ، الَّتِی لاَ یُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ وَلاَ فَاجِرٌ، وَبِأَسْمَاء ِ اللَّہِ الْحُسْنَی کُلِّہَا, مَا عَلِمْتُ مِنْہَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَبَرَأَ وَذَرَأَ.
(مشکاة: ۲۱۸ پر حضرت کعب احبارؓ سے منقول ہے۔)
اگرکوئی شخص اس دعا کو روزانہ صبح و شام پڑھا کرے تو ان شاء اللہ تعالیٰ سحر و جادو کے اثرات سے محفوظ رہے، اگر سحر ہو چکا ہو تو اثرات ختم ہو جائیں گے۔
پیشکش: نعیم الرحمن ندوی

*(نوٹ : آج دیوالی کی رات ہے۔)*
_________________
دعاء کعب احبارؓ اور حوالہ وغیرہ (فوٹو میں) بلاگر پر دیکھیں۔ لنک اوپر
167 views16:45
باز کردن / نظر دهید
2021-10-21 11:02:10 تو کہاں میں کہاں

سلمان عابدی

اے حبیب خدا
احمد مجتبی
اے رسول ابد
ھادئ نیک و بد
تو ہے عالی نسب
میں بڑا بے ادب
تیری خلقت الگ
میری طینت الگ
تو حریم الہی کا ہے رازداں
تو یقیں ہی یقیں میں گماں ہی گماں
تو کہاں میں کہاں

تیرا ثانی نہیں
تیرا سایہ نہیں
تیرے پیکر سا پیکر کسی کا نہیں
چاند بیشک حسیں ہے یہ مانا مگر
تیرے چہرے کے آگے وہ جچتا نہیں
تو رسول مبیں
رحمت العالمیں
اے رسولوں کی جاں
تو کہاں میں کہاں

خاک بطحا و طیبہ ہے
سر پر مرے
کتنے رتبے ہیں اللہ اکبر مرے
تیرے دیدار کی
پیاس ایسی لگی
پیچھے پیچھے پڑے ہیں سمندر مرے
تو مری آرزو
میں ترے روبرو
فخر کون و مکاں
تو کہاں میں کہاں

تاجروں کو دیانت کی دولت ملی
ماں کے پیروں میں بچوں کو جنت ملی
بیٹیوں کو وراثت میں حصہ ملا
تیری چوکھٹ پہ کتنوں کو عزت ملی
آمنہ کے پسر
امن کے راہبر
نازش انس و جاں
تو کہاں میں کہاں

تیرا پیغام تھا کس قدر با اثر
پھول بنکر کھلے پتھروں کے جگر
چشم رحمت اٹھی
دل نے کروٹ سی لی
ہوگئی پھر یکایک فضا معتبر
کوئی مقداد و سلمان و قنبر بنا
تو نے بے زر کو دیکھا
ابوزر بنا
رحمت بے کراں
تو کہاں میں کہاں

آندھیوں کی تھآ زد میں سفینہ مرا
تیرا دست کرم تھامنے آگیا
روتے روتے مری چشم نم ہنس پڑی
سبز گنبد مرے سامنے آگیا
میں ہوں بیمار غم
تیرا لطف و کرم
نسخہ جسم و جاں
تو کہاں میں کہاں

رات دن اک تڑپ میرے سینے میں ہے
کیا مزہ اے نبی ایسے جینے میں ہے
اشک آنکھوں میں ہیں
دل سنبھلتا نہیں
میں ہوں بھارت میں اور تو مدینے میں ہے
کب سے پامال ہوں
بے پر و بال ہوں
میری مجبوریاں
تو کہاں میں کہاں

ہوش کھونے لگی آج پھر زندگی
پھر بہکنے لگا آپ کا امتی
ہر مسلمان کو مولا سلمان کر
حکمرانوں کو دے دولت آگہی
ہے تقی کی صدا
دے مجھے آسرا
اے شہ مرسلاں
تو کہاں میں کہاں
83 views08:02
باز کردن / نظر دهید
2021-10-18 22:13:06 *ایک بزر گ* بیمار ہوئے تو ان کی والدہ ان کی عیادت کو تشریف لائیں وہ بزرگ اپنی والدہ کی آمد کا سُن کر ہشاش بشاش ہو کر اٹھے اور والدہ کے سر اور پاوں کا بوسہ لیا اپنی حالت کا ادراک ان کو نہ ہونے دیا اور نہایت چستی کی حالت میں بیٹھ کر والدہ سے بات چیت کرتے رہے مگر جونہی والدہ گھر سے رخصت ہوئی یہ تکلیف کی وجہ سے بستر پر گر پڑے اور ان پر غشی طاری ہو گئ۔ جب ہوش آیا تو اہل خانہ نے پوچھا کہ آپ نے اس طرح اپنے آپ کو مشقت میں کیوں ڈالا ؟؟

تو فرمانے لگے کہ بچے کی ہر ہائے اور درد بھری آواز والدین کے دل میں زخم کر دیتی ہے اس لیے میں اپنی والدہ کو اس عذاب سے گزارنا نہیں چاہتا تھا ۔

*شاید* آپ کے والدین نے آپکی توقعات کو پورا نہ کیا ہو ؛؛ مگر یقین کریں ان کے پاس جو بھی تھا انہوں نے وہ سب آپ پر لٹا دیا ہے ۔۔

*جب ہم زندگی کی* رونقوں میں مشغول ہوتے ہیں تو بھلے والدین کو بھول جائیں لیکن دکھ میں سب سے پہلے وہی یاد آتے ہیں ۔۔!!

*والدین کی قدر کرو* یہ وہ درخت ہے جو اکھڑ جائے تو پھر کبھی نہیں لگتا ۔ ان کی خدمت کر کے دعاؤں کے پھل سمیٹ لو ۔۔!!

*ماں زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا مینار ہے ! اور باپ ٹھوکروں سے بچانے والا مضبوط سہارا ہے*
92 views19:13
باز کردن / نظر دهید
2021-10-17 20:35:44 #Must_Read
آج انٹر کا رزلٹ آیا ہے تو کزن نے 940 نمبر حاصل کئے۔ خالہ کی مجھے کال آئی کہ تمہاری بہن رو رہی ہے اسے سمجھا دو ۔۔۔
السلام وعلیکم!
وعلیکم السلام بھیا۔۔
کیا حال ہیں بھئی؟
خاموشی۔۔
میں نے تو آپ کو مبارک باد دینے کیلئے بات کی ہے اور آپ رو رہی ہیں؟
بھیا میں نے بہت زیادہ محنت کی تھی۔۔
تو بیٹا آپ کے نمبر کم تو نہیں ہیں۔۔
پر بھیا یہ میری امید کے برعکس ہے۔۔
بیٹا آج امید اور توقعات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ یہ اب رزلٹ کا دن ہے اور نتیجہ آپ کے ہاتھ میں ہے اب امید کو ایک طرف رکھ دینے میں ہی بہتری ہے۔ اب جو ہے یہی ہے اور اسے قبول کرنے میں ہی بہتری ہے۔
مجھے بہت زیادہ رونا آ رہا ہے بھیا۔۔
اچھا یہ بتاؤ رونے سے کیا حاصل ہوگا؟ کوئی فائدہ؟ رونے سے آپ کے نمبر بڑھ جائیں گے؟
نہیں۔۔
تو پھر؟ اگر تو رونے سے نمبر بڑھتے ہیں تو میں بھی آ جاتا ہوں۔ دونوں بہن بھائی مل کر روتے ہیں؟ کیا خیال ہے؟
نہیں بھیا نمبر تو نہیں بڑھیں گے۔
تو بس پھر فائدہ کیا ہے؟ جب فائدہ نہیں ہے تو رونا کیوں ہے؟ صرف وقت ضائع کرنا اور آنے والے دن کو مشکل بنانے والی بات ہے۔۔۔

بھیا میری وہ فرینڈز جو مجھ سے کم پڑھا کرتی تھیں ان کے نمبر بھی مجھ سے زیادہ ہیں۔۔
سب سے بڑی غلطی خود کا دوسروں سے موازنہ کرنا ہے۔ دوسروں کی فکر مت کرو خود کو دیکھو۔ ایسے بھی بہت سے طلباء ہوں گے جنہوں نے آپ سے بھی زیادہ محنت کی ہوگی لیکن نمبر آپ سے کم ہوں گے۔ کیا آپ نے اپنی فرینڈز کا رزلٹ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟
نہیں۔ انہوں نے خود بتایا ہے۔
تو یہ بھی تو ممکن ہے کہ بڑھا چڑھا کر بتائے ہوں۔ بعض کی یہ عادت بھی ہوتی ہے تو بس دوسروں کو چھوڑو اور اپنے رزلٹ کو قبول کرو۔۔۔

آپ کو پتا ہے میرے کتنے نمبر تھے ایف ایس سی میں؟
کتنے بھیا؟
700 ۔ آپ سے بہت کم تھے۔ لیکن انجوائے کیا تھا۔ سوچا اسے جاتا ہے جسے ہم بدل سکتے ہوں۔ جسے ہم بدل نہیں سکتے اسے سوچنا بھی نہیں چاہیے۔۔
آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
بی ایس فزکس۔۔
تو کیا پریشانی ہے؟ جو آپ نے کرنا ہے اس کیلئے بہترین مارکس ہیں آپ کے آرام سے اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ہو جائے گا۔ سوچنا چھوڑیں اور انجوائے کریں۔ خوش رہیں۔۔

بچہ پہلے ہی مایوس ہوتا ہے اس وقت پر بچے کو سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سے طلباء ان دنوں میں ہی شدید ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنا کیریئر اور اپنی ذات کو تباہ کر لیتے ہیں۔
لہذا ایسے وقت پر بچوں کو یہ مت کہیں کہ پیسے ضائع کر دیئے۔ خاندان میں ناک کٹوا دی۔ فلاں کے نمبر تم سے زیادہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔
یاد رکھیں کہ آپ کا بچہ کم نمبروں کے ساتھ تو کامیابی حاصل کر سکتا ہے لیکن ڈپریشن کے ساتھ نہیں۔۔

آج آپ کے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو آپ کی سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ آج کا دن بہت اہم ہے۔ آپ کا کوئی ایک جملہ انہیں شدید ڈپریشن اور مایوسی میں مبتلا کر سکتا ہے جبکہ کوئی ایک جملہ کم نمبروں کے باوجود ان کی آنے والی زندگی اور مستقبل کو کامیاب اور دلچسپ بنا سکتا ہے۔ برائے مہربانی سوچ سمجھ کر جملوں کا استعمال کیجیے گا۔

(نقل وچسپاں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
47 views17:35
باز کردن / نظر دهید
2021-10-14 13:16:57 آج صبح میں جوگنگ کررہا تھا، میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے آدھا کلومیٹر دور تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھ سے تھوڑا آہستہ دوڑ رہا ہے، مجھے بڑی خوشی محسوس ہوئی، میں نے سوچا اسے ہرانا چاہئے۔ تقریبا ایک کلو میٹر بعد مجھے اپنے گھر کی جانب ایک موڑ پر مڑنا تھا۔ میں نے تیز دوڑنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی منٹوں میں، میں دھیرے دھیرے اس کے قریب ہوتا چلا گیا۔جب میں اس سے 100 فٹ دور رہ گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی جوش اور ولولے کے ساتھ میں نے تیزی سے اسے پیچھے کردیا۔

میں نے اپنے آپ سے کہا کہ "یس!! میں نے اسے ہرادیا"

حالانکہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ ریس لگی ہوئی ہے۔

اچانک مجھے احساس ہوا کہ اسے پیچھے کرنے کی دھن میں میں اپنے گھر کے موڑ سے کافی دور آگیا ہوں۔ پھر مجھے احساس ہواکہ میں نے اپنے اندرونی سکون کو غارت کردیا ہے، راستے کی ہریالی اور اس پر پڑنے والی سورج کی نرم شعاعوں کا مزہ بھی نہیں لے سکا۔ چڑیوں کی خوبصورت آوازوں کو سننے سے محروم رہ گیا۔میری سانس پھول رہی تھی، اعضاء میں درد ہونے لگا، میرا فوکس میرے گھر کا راستہ تھا اب میں اس سے بہت دور آگیا تھا۔

تب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہماری زندگی میں بھی ہم خوامخواہ Competition کرتے ہیں، اپنے co workers کے ساتھ، پڑوسیوں، دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ، ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان سے بہت بھاری ہیں ، زیادہ کامیاب ہیں، یا زیادہ اہم ہیں، اور اسی چکر میں ہم اپنا سکون، اپنے اطراف کی خوبصورتی، اور خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے`

اس بیکار کے Competition کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا چکر ہے۔_

ہر جگہ کوئی نا کوئی آپ سے آگے ہوگا، کسی کو آپ سے اچھی جاب ملی ہوگی، کسی کو اچھی بیوی، اچھی کار، آپ سے زیادہ تعلیم، آپ سے ہینڈسم شوہر، فرمانبردار اولاد، اچھا ماحول، یا اچھا گھر وغیرہ

یہ ایک حقیقت ہےکہ آپ خود اپنے آپ میں بہت زبردست ہیں، لیکن اس کا احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک کہ آپ اپنے آپ کو دوسروں سے compare کرنا چھوڑ دیں۔

بعض لوگ دوسروں پر بہت توجہ دینے کی وجہ سے بہت nervous اور insecure محسوس کرتے ہیں، اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان پر focus کیجئے، اپنی height، weight ، personality، جو کچھ بھی حاصل ہے اسی سے لطف اٹھائیں۔اس حقیقت کو قبول کیجئے کہ اللہ نے آپ کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔۔۔
مقابلہ بازی یا تقابل ہمیشہ زندگی کے لطف پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کے مزے کو کرکرا کر دیتے ہیں۔

تقدیر سے کوئی مقابلہ نہیں، سب کی اپنی اپنی تقدیر ہوتی ہے، تو صرف اپنے مقدر پر فوکس کیجئے۔

دوڑیئے ضرور! مگر اپنی اندرونی خوشی اور سکون کیلئے نہ کہ دوسروں کو اپنے سے چھوٹا ثابت کرنے کے لیے، نیچا دکھانے کے لیے یا پیچھے چھوڑنے کے لئے۔۔!!
84 views10:16
باز کردن / نظر دهید
2021-10-14 00:15:22 ایک شادی شدہ جوڑے کے گھر کے سامنے نئے پڑوسی آئے۔ اِن کی کھڑکی سے نئے پڑوسیوں کا گھر صاف دکھائی پڑتا تھا۔ یہ شادی شدہ جوڑے کی عورت اپنے نئے ہمسائیوں کی ہر چھوٹی چھوٹی بات کو کھڑکی سے نوٹ کرتی اور اپنے شوہر سے شیئر کرتی۔
ایک دن جب وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے تو بیوی نے کھڑکی میں سے دیکھا کہ سامنے والوں نے کپڑے دھو کر پھیلائے ہوئے ہیں۔ "یہ لوگ کتنے خراب اور گندے کپڑے دھوتے ہیں"، بیوی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اپنے شوہر سے بولی،
"ذرا صاف کپڑے نہیں دُھلے، اِن کی خواتین کو کپڑے دھونے آتے ہی نہیں ہیں، ان کو چاہیے کہ اپنا صابن تبدیل کرلیں، یا کم از کم کسی سے سیکھ ہی لیں کہ کپڑے کس طرح دھوئے جاتے ہیں"۔ شوہر نے نظریں اُٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا، زیرِ لب مسکرا کر پھر ناشتہ کرنے میں مشغول ہو گیا۔
اسی طرح ہر بار جب بھی اُن کے پڑوسی کپڑے دھو کر پھیلاتے، اِس عورت کے اُن کے کپڑوں اور دُھلائی کے بارے میں یہی تاثرات ہوتے۔ وہ ہمیشہ ہی اپنے شوہر کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتی کہ "آج پھر ان لوگوں نے کپڑے اچھے نہیں دھوئے", "دل چاہتا ہے خود جا کر ان کو بتا دوں کہ کس طرح یہ اپنے کپڑوں کی دھلائی بہتر کر سکتے ہیں"۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔!
الغرض اُن کے پڑوسیوں کا گھر اور اُن کے کپڑوں کی دھلائی ہمیشہ ہی اِس عورت کی تنقید کا نشانہ بنے رہتے۔
ایک صبح جب یہ عورت ناشتے کی میز پر بیٹھی تو پڑوسیوں کے صاف سُتھرے دُھلے ہوئے کپڑے دیکھ کر حیران رہ گئی اور اپنے شوہر سے بولی، "دیکھا! بالآخر انہوں نے سیکھ ہی لیا کہ کپڑے کیسے دھوئے جاتے ہیں، شکر ہے کہ آج اُن کے کپڑے صاف ہیں، لیکن مجھے حیرت ہے کہ آخر یہ عقل اُن کو آئی کیسے۔۔۔؟"
پھر شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے بولی "شاید انہوں نے کپڑے دھونے کا طریقہ تبدیل کر لیا ہے یا پھر اپنا صابن بدل دیا ہے" اور چپ ہوتے ہی اپنے شوہر کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔
شوہر جو ناشتہ کرنے میں مصروف تھا بیوی کی باتیں سن کر مسکراتے ہوئے، کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا، "بیگم! آج صبح میں جلدی اُٹھ گیا تھا اور میں نے اِس گرد سے بھری ہوئی کھڑکی کو اچھی طرح صاف کر دیا تھا، جہاں سے تم سامنے والوں کو دیکھتی تھی"

_حاصل کلام :بالکل ایسا ہی ہماری روزمرہ زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ ہماری اپنی کھڑکی صاف نہیں ہوتی اور ہم دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ خود ہمارے اندر ہوتا ہے لیکن ہمارا اُس طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔
کسی کو پرکھنے کا یہ انتہائی بہترین طریقہ ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی کھڑکی کو دیکھیں، کیا وہ صاف ہے؟ کیونکہ جب ہم کسی کو دیکھتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو اس بات کا انحصار اُس کھڑکی یا ذریعے کی شفافیت پر ہوتا ہے جس سے ہم کسی کو چانچ رہے ہوتے ہیں۔
چونکہ انسان خطا کا پتلہ ہے اِس لیے غلطی کا انسان سے صادر ہونا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن دوسروں پر انگلی اُٹھانے سے پہلے اِس چیز کا یقین کر لیں کہ کیا ہم بھی تو اُسی غلطی سے دوچار نہیں ....!
37 views21:15
باز کردن / نظر دهید
2021-10-07 03:44:52 تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

پاون تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی
اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا

مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا

خوش رنگ اور خوشبو گُل پھول ہیں کھلائے
اِس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا

میوے لگائے کیا کیا ، خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا

سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا

سورج بنا کے تُو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا

پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تُو نے مینہ کا نشاں بنایا

یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری اِن کو تسبیح خواں بنایا

تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا

اونچی اُڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
اُن بے پروں کا اِن کو روزی رساں بنایا

کیا دودھ دینے والی گائیں بنائی تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا

رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میّسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا

آبِ رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا

ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
143 views00:44
باز کردن / نظر دهید
2021-10-02 18:18:51 آج 2 اکتوبر ہے
آج ہی کے روز 1187 کو عطیم مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی (رح) نے بیت القدس کو صلیبیوں سے آزاد کرایا تھا۔
بیت المقدس پر صلیبیوں کے قبضے کی مختصر روداد کچھ یوں ہے۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ اربن ثانی نے 1095ء میں مقدس صلیبی جنگوں (The Crusades) کا اعلان کیا۔ اور اس میں شرکت کرنے والوں کے گناہوں کی معافی اور ان کو جنت میں جانے کا مژدہ سنایا۔
زبردست تیاریوں کے بعد فرانس‘ انگلینڈ، اٹلی، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی افواج پر مشتمل 13 لاکھ صلیبیوں کا سیلاب عالم اسلام کی سرحدوں پر ٹوٹ پڑ۔ شام اور فلسطین کے ساحلی شہروں پر قبضہ کرنے اور وہاں ایک لاکھ سے زائد افراد کا قتل عام کرنے کے بعد 7 جون 1099ء کو صلیبی افواج بیت المقدس پہنچ گئیں۔
اس موقعہ پر رافضی العقیدہ بنی فاطمیہ کے حکمران نے اپنی فوجیں بیت القدس سے ہٹا دیں۔ جس کے بعد مزاحمت کرنے والے شہر کے نہتے مکین تھے یا نیم مسلح اور غیر منظم چند ہزارمجاہدین فی سبیل اللہ، قبلہ اوّل کی حفاطت کے لئے وہاں پہنچے تھے۔
42 دن کے صلیبی محاصرے کے بعد مجاہدین کی مزاحمت جواب دے گئی، اور صلیبی بیت المقدس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس کے بعد وہاں خون کی ندیاں بہائیں۔

خود متعصب فرانسیسی مورخ ”میشو“ کے بقول صلیبیوں نے ایسی خونخواری کا مظاہرہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں کو اونچے اونچے برجوں اور مکانوں کی چھت سے گرایا گیا، آگ میں زندہ جلایا گیا، گھروں سے نکال کر میدان میں جانوروں کی طرح گھسیٹ کر مارا گیا، صلیبی جنگجو مسلمانوں کو مقتول مسلمانوں کی لاشوں پر لے جاکر قتل کرتے رہے، مغربی مورخین کے مطابق ستر ہزار سے زائد مسلمان صرف مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف میں تہ تیغ کیے گئے۔
یورپ کو فتح کی خوشخبری کا جو پیغام بھجوایا گیا اس میں لکھا :”اگر آپ اپنے دشمنوں کے ساتھ ہمارا سلوک معلوم کرنا چاہیں تو مختصراً اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ جب ہمارے سپاہی حضرت سلیمان علیہ السلام کے معبد (مسجد اقصیٰ) میں داخل ہوئے تو ان کے گھٹنوں تک مسلمانوں کا خون تھا۔
صلاح الدین ایوبی (رح) کے ہاتھوں رافضی خلافت بنی فاطمیہ کے خاتمے سے بیت المقدس کی فتح کا عملا آغاز ہوا۔ اس سلسلے میں بڑی کامیابی 4 جولائی 1187ء کو جنگ حطین میں صلیبیوں کے متحدہ لشکر کو ہونے والی زبردست شکست کی صورت میں ملی۔ جس کے بعد صلاح الدین ایوبی (رح) کی فوج اور مجاہدین نے عکہ، نابلوس، یافہ، سیدون، بیروت کے شہروں کو فتح کرتے ہوئے 20 ستمبر کو بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔ 2 اکتوبر 1187 کو صلیبیوں نے ہتھیار ڈال کر شہر کو صلاح الدین ایوبی (رح) کے حوالے کر دیا۔
اس موقع پر کسی صلیبی کو قتل نہ کیا گیا بلکہ انہیں ایک معمولی فدیہ کے بدلے اپنے اہل عیال سمیت شہر چھوڑنے کی اجازت دی گئی۔ جو لوگ ناداری کے باعث زر فدیہ ادا کرنے کے قابل نہیں تھے ان کی جانب سے صلاح الدین ایوبی (رح) نے خود فدیہ ادا کر دیا تھا۔
جدید تاریخ میں، پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ایک بار پھر یہودیوں کے قبضے میں ہے۔

اور امت کسی صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے۔
248 views15:18
باز کردن / نظر دهید
2021-09-30 18:40:21 حضرت جنید بغدادی رح کے پاس ایک عورت آئی ، اور پوچھا کے حضرت آپ سے ایک فتویٰ چاہئے کہ اگر کسی مرد کی ایک بیوی ہو تو کیا اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح جائز ہے ؟حضرت جنید بغدادی رح نے فرمایا بیٹی اسلام نے مرد کو چار نکاح کی اجازت دی ہے بشرطیکہ چاروں کی بیچ انصاف کر سکے –
اس پر اس عورت نے غرور سے کہا کہ حضرت اگر شریعت میں میرا حسن دکھانا جائز ہوتا تو میں آپ کو اپناحسن دکھاتی اور آپ مجھے دیکھ کر کہتے کہ جس کی اتنی خوبصورت بیوی ہو اسے دوسری عورت کی کیا ضرورت؟؟اس پر حضرت نے چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے – وہ عورت چلی گئی جب حضرت ہوش میں آئے تو مریدین نے وجد کی وجہ پوچھی -حضرت نے فرمایا کہ جب عورت مجھے یہ آخری الفاظ کہ رہی تھی تو الله تعالیٰ نے میرے دل میں یہ الفاظ القا کیے کہ :اے جنید ! اگر شریعت میں میرا حسن دیکھنا جائز ہوتا تو میں ساری دنیا کو اپنا جلوہ کرواتا تو لوگ بے اختیار کہہ اٹھتے کہ جس کا اتنا خوبصورت الله ہو اسے کسی اور کی کیا ضرورت ہے.؟
(نقل وچسپاں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
304 views15:40
باز کردن / نظر دهید
2021-09-28 16:10:40 انسانی گردے کی قیمت

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ کراچی میں گردے کے ایک اسپیشلسٹ ہیں، ان سے ایک مرتبہ میرے بھائی نے پوچھا کہ آپ ایک انسان کے جسم سے گردہ نکال کر دوسرے انسان کو لگا دیتے ہیں، لیکن اب تو سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے تو کوئی مصنوعی گردہ کیوں نہیں بنا لیتے، تاکہ دوسرے انسان کے گردے کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے؟

وہ ہنس کر جواب دینے لگے، کہ اول تو سائنس کی اس ترقی کے باوجود مصنوعی گردہ بنانا بڑا مشکل ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے گردے کے اندر جو ایک چھلنی لگائی ہے وہ اتنی لطیف اور باریک ہے کہ ابھی تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو اتنی لطیف اور باریک چھلنی بنا سکے۔ اگر بالفرض ایسی مشین ایجاد ہو بھی جائے اور ایسی چھلنی بنا بھی لی جائے تو اس پر اربوں روپے خرچ ہوں گے، اور اگر اربوں روپے خرچ کر کے ایسی چھلنی بنا لی جائے تب بھی گردے کے اندر ایک چیز ایسی ہے جو ہماری قدرت سے باہر ہے، وہ چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے گردے کے اندر ایک دماغ بنایا ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ اس آدمی کے جسم کو کتنا پانی ضرورت ہے ، کتنا پانی جسم میں رکھنا ہے اور کتنا پانی باہر پھینکنا ہے۔ ہر انسان کا گردہ اس انسان کے حالات کے مطابق ، اس کے جسم کے مطابق اور اس کے وزن کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کتنا پانی اس کے جسم میں رہنا چاہیے اور کتنا باہر پھینکنا چاہیے۔ اور اس کا سو فیصلہ فیصد درست ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اتنا پانی جسم میں روکتا ہے جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت سے زائد پانی پیشاب کی شکل میں جسم سے باہر پھینک دیتا ہے۔ لہذا اگر ہم اربوں روپے لگا کر مصنوعی گردہ بنا بھی لیں تب بھی ہم اس کا وہ دماغ نہیں بنا سکتے جو اللہ تعالیٰ ہر انسان کے گردے میں پیدا فرمایا ہے۔۔۔۔۔!!

"تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟"

(اسلام اور ہماری زندگی، 2 / 26 - 27)
134 views13:10
باز کردن / نظر دهید