Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 5

2022-04-10 04:35:27 *شُکریہ مولوی صاحب،*
*شُکریہ حافِظ صاحب،*
*شُکریہ مَدارِس،*

رات تراویح پڑھی،
نماز سے قبل سوچ رہا تھا کہ،
آج پوری دُنیا میں حفاظ کرام،
الله کریم کا قُرآن مُنہ زُبانی سُنائیں گے،
پُوری بیس رکعتوں میں کہیں سوا پارے کی تو کہیں زیادہ کی ترتیب ہوگی،
طاغوت کے دل میں بیٹھ کر کوئی حافظ، قرآن سنا رہا ہو گا،
تو کوئی کعبے کے مطاف میں سنا رہا ہے،
گاؤں گاؤں،
قریہ قریہ،
گلی گلی،
مُلکوں مُلکوں
مساجد میں قرآن کے زمزمے ہیں۔
کسی یونیورسٹی میں حفظِ قرآن کا کوئی بندوبست نہیں،
*" شعبہ تحفیظ قرآن "* نام کے کسی شعبہ سے یونیورسٹی کے در و دیوار نا آشنا ہیں،
کسی کالج میں بھی کوئی مضمون تحفیظ کا نہیں،
کسی سکول میں بھی کوئی ترتیب نہیں سوائے چند اسلامی سکولوں کے لیکن
ان کے نتائج بھی مایوس کن ہی ہیں،
پھر یہ لاکھوں مساجد کو حفاظ کس نے مُہیا کئے؟
کہاں سے پھوٹ پڑے اتنی بڑی تعداد میں حفاظ؟
کس نے تیار کئے یہ حافظ صاحبان؟
کہیں بھی تو قرآن کے حفظ پر کسی نوکری کا وعدہ نہیں،
پھر کون ہیں جو اپنے بچوں کے تین تین سال ایک بالکل مادی نقصان میں لگوا رہے ہیں،
روشن مستقبل کے اس پُرآشوب الحادی دور میں کونسی وہ مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو روشن،
آخر کس بنیاد پر مادی روشن خیالی سے کاٹ رہی ہیں؟
کل اور آج بجلی نہیں تھی،
پورے ملک سے شکایات کے انبار لگ گئے،
لیکن ملک کے کسی گوشے سے بھی یہ آواز نہیں آئی کہ فلاں مسجد میں حافظ نہیں ہے،
لوگ چراغ لیکر ڈھونڈتے ہیں بجلی کو
لیکن کسی مسجد والے نے اعلان نہیں کیا کہ ہمیں حافظ کی ضرورت ہے۔
امت کی یہ ضرورت کس نے پوری کی؟
حفاظ کی ترسیل میں تعطل کون نہیں آنے دے رہا؟
دنیا کے کسی گوشے میں بھی تو حفاظ کی "لوڈ شیڈنگ" نہیں ہوئی
مسجد کیا اب تو مسجد کی ہر ہر منزل پر
بیٹھکوں بازاروں میں بھی سننے سنانے کی ترتیبات قائم ہیں،
کون کر رہا ان ترتیبات کا انتظام؟
بچے کی مادری زبان انگریزی،
اردو،
پشتو،
سندھی،
پنجابی،
ڈچ،
فرانسیسی،
لیکن قرآن عربی ہی میں یاد کرتا ہے،
اور سناتا ہے،
*منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے کے فخر میں مبتلاء انسانوں میں سے یہ کون ہیں جو انگریزی نہیں عربی کتاب یاد کر رہے ہیں؟*
کون ان میں یہ شوق پیدا کررہا ہے؟
جس پہلو سے سوچیں
جس تناظر میں دیکھیں
جس زاویہ سے پرکھیں
جس ترازو میں تولیں
جس مرضی فلسفہ سے جانچیں،
جواب ایک ہی آئے گا

*مدرسہ، مدرسہ، اور صرف مدرسہ،*
صبح شام طعنے بھی سنتا ہے،
روز نفرت کی آوازیں بھی سہتا ہے،
ہر شب اس کے خلاف ایوانوں میں اس کے خاتمے کے منصوبے بھی بنتے ہیں،
لیکن یہ صبح کے سورج کے ساتھ امن سلامتی کا پیغام لیکر اٹھتا ہے،
اور دعاؤں میں ساری دنیا کو یاد کر کے سوتا ہے۔
رات تراویح پڑھی،
مزہ آیا،
وہ سارے لوگ جو سارا سارا دن مدارس کو کوستے ہیں،
لیکن رات وہ بھی مدرسے کی برکت سمیٹ رہے تھے،
اور مدرسے کا طالب اسے بھی خوش الحانی میں قرآن سنا رہا تھا،
اس کے ساتھ سجدے کر رہا تھا،
واہ بے اختیار دل سے نکلا،

*شُکریہ مَدارِس،*
*شُکریہ مولوی جی*
*شُکریہ حافِظ جی•*
495 views01:35
باز کردن / نظر دهید
2022-04-01 07:31:02 ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ لوگ ہمارے اعمال، اخلاق اور کردار کو دیکھ کر اسلام کے قریب آتے مگر ہماری اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے ہمارے برادران وطن جن کا ذہن فرقہ پرستوں نے پہلے ہی خراب کررکھا ہے وہ مزید بدظن ہوتے جارہے ہیں، ........ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ شریعت میں ہر وہ حرکت جس سے خلق خدا کو تکلیف پہونچے قطعی حرام اور ناجائز ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جو کام شریعت اور ثواب سمجھ کر کررہے ہیں وہی ہمارے لئے عذاب کا سبب بن جائے ......... اسی کو کہتے ہیں نیکی برباد گناہ لازم !

ضرورت ہے کہ ہر علاقے اور ہر محلے میں ایسے سمجھ دار نوجوان آگے آئیں اور از خود اپنے یہاں کی مساجد کے ذمہ داروں کو سمجھا بجھا کر وہاں ہونے والے مائیک کے غیر ضروری استعمال کو روکنے پر راضی کریں، ......... ورنہ خدا نخواستہ شہر کی انتظامیہ کی طرف سے سختی ہونے لگی تو اس کی زد میں شہر کی تمام مسجدیں بھی آجائیں گی ـ

ایک بار پھر یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ مائیک پر نماز اور اذان پر کوئی پابندی نہیں ہے، بس اس کے بے استعمال کو روکنا چاہیئے، یہ ہم سب لوگوں کی اخلاقی اور شرعی ذمہ داری بھی ہے ـ

محمود احمد خاں دریابادی
یکم اپریل ۲۰۲۲، شب ا بجے
615 views04:31
باز کردن / نظر دهید
2022-04-01 07:31:01 مائیک کا بے دریغ استعمال ........ ! نیکی برباد گناہ لازم ـ
ـــــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی

الحمد للہ رمضان کی مقدس ساعتیں بس آیا ہی چاہتی ہیں، عبادت،تلاوت، نماز، روزہ، تراویح، تسابیح، زکوۃ، فطرہ اور خیرات کا مہینہ ؛ اسی کے ساتھ سحری افطار کے بازاروں، عید کی شاپنگ، کپڑے، جوتے، میوے، مصالحے، سوئیں اور شیرینی خریدنے کے لئے مسلمان مردوں اور عورتوں کا زبردست ازدحام، جس کی وجہ ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، بیماروں اور کمزورں کے لئے زبردست مشکلات پیش آتی ہیں، ساتھ ہی ہمارے نوجوانوں کی بائیک پر رات بھر کی مٹرگشتی اور غلط جگہ گاڑیاں پارک کرنے عادت کی وجہ سے بھی عوام الناس پریشان ہوتے ہیں، پریشان ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد بلکہ اکثریت خود مسلمانوں کی ہوتی ہے ـ

رمضان سے قبل ان ہی سب مسائل پر غور کرنے کے لئے بروز جمعرات ۳۱ مارچ ۲۰۲۲ کو ممبئی کے پولیس کمشنر مسٹر سنجے پاڈے نے شہر کے مقتدر علماء اور خواص کی میٹنگ بلائی، جس میں دیگر اعلی پولیس افسران بھی موجود تھے، .......... کمشنر صاحب نے ابتدا ہی میں تمام علماء اور خواص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے شب برات سے قبل کی میٹنگ میں ممبئی پولیس کی طرف سے جو درخواست کی تھی کہ مقدس راتوں میں مسلم نوجوانوں پر کنٹرول رکھیں، سڑکوں پر بائیک دوڑ کے مقابلے، ایک بائیک پر تین چار افراد کا سوار ہوکر ریسنگ کرنا، لوکل اشٹیشنوں پر مسلم نوجوانوں کے ہنگامے، بلاوجہ کی نعرے بازی، قبرستانوں پر ڈھینگا مستی جیسے معاملات بڑی جو ہرسال بڑی تعداد میں رپورٹ ہوتے تھے، اس سال آپ حضرات کی کوششوں کی وجہ سے پورے شہر میں اس طرح کا ایک بھی معاملہ سامنے نہیں آیا، قبرستانوں میں بھی پورے ڈسپلن کے ساتھ مسلمانوں نے زیارت کی ـ انھوں نے کہا کہ میں تقریبا ۳۲ سال سے ممبئی پولیس کے مختلف عہدوں پر رہا ہوں اس سال جس طرح ممبئی میں شب برات پورے تقدس، احترام اور ضابطوں کی رعایت کے ساتھ منائی گئی ہے میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا ـ

کمشنر صاحب نے رمضان کا ذکر کرتے ہوئے بھی علماء سے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ ایسا ہی تعاون کرنے کی اپیل کی، انھوں نے کہا کہ ہم ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہیں، ہم ہر جگہ موجود بھی رہیں گے مگر ہم اپنی طرف سے آپ حضرات پر کوئی پابندی بالکل نہیں لگارہے ہیں، بس آپ حضرات اپنے طور پر یہ نظر رکھیں کہیں بھی ایسا کوئی کام نہ ہو جس کی وجہ سے کسی دوسرے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے، ہمیں پوری امید ہے کہ جس طرح شب برات میں آپ حضرات کے تعاون کی وجہ سے پولیس کو کہیں سے بھی کوئی شکایت نہیں آئی رمضان کا مقدس مہینہ بھی مکمل امن وامان سے گزرے گا ـ

دوران گفتگو انھوں نے سرسری طور پر یہ بات بھی بتائی کہ ان کے پاس دو روز قبل دوسرے لوگ بھی آئے تھے جو رمضان میں مسلمانوں کی بعض چیزوں پر روک لگانے کی بات کررہے تھے، کمشنر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے صاف اور دوٹوک انداز میں کہدیا کہ ممبئی پولیس کو آپ کے مشوروں کی ضرورت نہیں، پولیس کمزور نہیں ہے، کب کہاں کیا کرنا ہے خوب جانتی ہے، آپ حضرات اپنی حد میں رہیں ورنہ ......... ؟

آخر میں ایک اہم معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کمشنر صاحب نے کہا کہ کچھ علاقوں سے ( ممبئی کے ایک علاقے کا نام بھی لیا ) مائیک کے بے جا استعمال کی شکایت آرہی ہے، انھوں نے کہا کہ ہم وہاں بھی کسی طرح کی مداخلت نہیں کرنا چاہتے آپ حضرات ذمہ دار افراد ہیں وہاں کے لوگوں سے رابطہ کرکے معاملے کا کوئی ایسا حل نکالیں کہ مقامی افراد کو شکایت کا موقع نہ ملے ـ

کمشنر صاحب کے ساتھ ہونے والی یہ میٹنگ بہت مثبت رہی، انشااللہ اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے ......... مگر آخر میں انھوں نے مائیک والا معاملہ جو اٹھایا اس پر ہم لوگوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، مسجدوں میں مائیک کے استعمال، مائیک پر اذان وغیرہ پر کوئی پابندی نہیں ہے، .......... مگر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ہمارے یہاں مائیک کا بے جا، غیر ضروری، بے دریغ اور بے دردانہ استعمال نہیں ہورہا ہے ؟ .......... اذان کے علاوہ بھی بچوں کے پروگرام، علماء کی تقاریر، نعت اور تلاوت، قبل اذان، بعد اذان اور نماز بعد کے طول طویل معمولات مائیک پر پوری آواز سے نشر ہوتے ہیں، بعض جگہ مائیک مسجدوں کے آس پاس کی گلیوں میں ہی نہیں بلکہ دور دراز تک لگائے جاتے ہیں، اگر آس پاس کئی مسجدیں ہیں تو ہر مسجد کے مائیک پوری قوت سے چلتے ہیں، کان میں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، رمضان کی راتوں میں بعض جگہ پوری رات مائیک چلتے ہیں، محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے تلاوت، نعت اور نعرے بازی کی مشق کرتے رہتے ہیں، ایسے میں بیماروں خصوصا دل کے مریضوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے، مسلمان تو پھر بھی مسجد کے احترام میں کچھ کہہ نہیں پاتے مگر غیر مسلم برادران وطن اس صورت حال کو کیسے برداشت کرپائیں گے ہمیں یہ بھی سوچنا چاپیئے ـ
532 views04:31
باز کردن / نظر دهید
2022-03-31 10:22:28
ہماری کتنی ہی خواہشات میں ہماری ہلاکت کا سامان ہوتا ہے اس لئے قدرت انھیں پورا نہیں کرتی اور ہم سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی


433 views07:22
باز کردن / نظر دهید
2022-02-28 18:37:08 مہنگائی

انسان پر ایک وقت ہوتا ہے کہ وہ کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے جو فرض کریں اس وقت ایک لاکھ میں مل رہی ہوتی ہے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ خرید نہیں پاتا۔۔
پھر اس پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہی چیز جو اس وقت دس لاکھ کی مل رہی ہوتی ہے تب اسے خریدنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ تب اس کے پاس اتنے وسائل موجود ہوتے ہیں کہ وہ دس لاکھ میں بھی خرید سکے۔
مسئلہ مہنگائی نہیں اصل مسئلہ وسائل اور قوت خرید میں اضافہ کرنا ہے۔ آج سے پچاس سال قبل بھی ہمارے بزرگ یہی کہا کرتے تھے کہ مہنگائی بہت ہے۔۔ اور آج ہم بھی مہنگائی کو کوسنے دیتے رہتے ہیں۔۔ میں اور آپ اپنا جائزہ تو لیں کہ آج سے پندرہ بیس سال قبل ہمارے پاس کیا تھا اور آج ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔
مہنگائی ایسے ہی تھی اور ایسے ہی رہے گی اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے وسائل بڑھانے کی پلاننگ کریں اور نیک نیت کے ساتھ میدان عمل میں اتریں پھر ان شاءاللہ آپ کے پاس اتنے وسائل آ جائیں گے کہ مسئلہ نہیں رہے گا۔

بشارت حمید
ــــــــــــــ
56 views15:37
باز کردن / نظر دهید
2022-02-23 11:17:04 فتبٰرك اللہ احسن الخٰلقین ۔۔۔
لکوئ ہے مجھ جیسا تخلیق کار ؟؟؟
انسانی جسم کی انگلیوں میں لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں جب انسان ماں کے شکم میں 4 ماہ تک پہنچتا ہے یہ لکیریں ایک ریڈیایی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں ان لہروں کو بھی پیغامات ڈی۔۔این۔۔اے دیتا ہے.

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے.

یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ ثابت کرتا ہے ۔۔۔۔۔
کہ ہے کوئ مجھ جیسا ڈیزائنر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا کاریگر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا آرٹسٹ ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا مصور ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا تخلیق کار ؟؟؟

حیرانگی کی انتہاء تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔

پس ہم پر کھلتا ہے کہ پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی تو جو چیز لاکھوں سائنسدانوں کی کوششوں سے نہیں بن پا رہی وہ خود سے کیسے بن سکتی ہے۔“
69 views08:17
باز کردن / نظر دهید
2022-02-21 15:44:50 واہ کیا ندرت ہے، کیا عجیب کلام ہے
اردو کے سارے حروف تہجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*میرا لفظ لفظ تراش کر*
*مجھے حرف حرف تلاش کر*
میں *الف* ہوا تو الم ہوا
ہوا *ب* تو باعث ِغم ہوا
جہاں *پ* نے پاؤں جکڑ لئیے
وہیں *ت* نے تلوے پکڑ لئیے
کہیں *ٹ* جو مجھ کو ٹکر گیا
وہیں *ث* نے مجھ کو ثمر دیا
کبھی *ج* مجھ کو جلا گیا
کبھی *چ* نے چکر چلا دیا
مگر *ح* نے حال بدل دیا
اور *خ* نے خال بدل دیا
تبھی *د* سے دل لگا لیا
اور *ڈ* سے ڈنکا بجا دیا
پھر *ذ* سے ذات کو پا لیا
اور *ر* سے رستہ بنا لیا
اک *ڑ* سے بات بگڑ گئی
تب *ز* سے زینت سنور گئی
اور *ژ* سے ژاژ کا دم گیا
وہیں *س* سے میں سنبھل گیا
کسی *ش* نے مجھے دی شعاع
تو *ص* نے مجھے دی صبا
اور *ض* نے دیا ضابطہ
سر ِشام *ط* کے طنز سے
سر ِ بزم *ظ* کے ظرف نے
میرے *ع* کو دیا عزم ِ نو
میرے *غ* کو کیا غرض ِگو
یہیں *ف* سے مل گیا فاصلہ
یہیں *ق* سے ملا قافلہ
یہیں *ک* نے کہا کچھ نہیں
یہیں *گ* نے گِنا کچھ نہیں
ملا *ل* تو اس نے لڑا دیا
میرے *م* نے مجھے آ کہا
تیرا *ن* تجھ سے نِراش ہے
تیرا *و* وقت کی آس ہے
کہا *ہ* نے ہاتھ کو تھام بس
کہا *ء* نے میں ہوں ءام مس
میری *ی* نے آ کے یقیں دیا
بڑی *ے* یہاں کی ہے سربراہ
*ابھی وقت ہے تو تلاش کر*
*مجھے لفظ لفظ تراش کر**
99 views12:44
باز کردن / نظر دهید
2022-02-19 19:58:26 ایک عمر رسیدہ خاتون، جج کے سامنے پیش ہوئیں۔ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کا جرم تھا۔ یہ منظر امریکہ کے مشہور پچاسی سالہ چیف جج فرینک کیپریو کی عدالت کا ہے جس کی کاروائی ٹیلی ویژن پر دِکھائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی یہ جج بہت مشہور ہیں۔
خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی طبی ایمرجنسی کا سن کر تیزی میں نکلی تھیں۔
خاتون کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے پینسٹھ سال ہوچکے اور شادی ہوئے ساٹھ سال۔
جج کیپریو نے کیس خارج کرتے ہوئے خاتون کو محبت کرنے والی، مخلص بیوی قرار دیا اور پھر خاتون سے ساٹھ سالہ لمبی کامیاب ازدواجی زندگی کا راز پوچھا۔
خاتون نے ایک لفظ میں جواب دیا۔ ساٹھ سالہ کامیاب ازدواجی زندگی کا نچوڑ محض ایک لفظ میں سمو دیا
Tolerance
برداشت
ہمارے ہاں تو اوسط عمر ہی کم ہے تو ایسی طویل ازدواجی زندگی عنقا ہے۔ بہت ہوا تو چالیس سال، پچاس سال بھی کمیاب۔
لیکن پچھلے بیس سال کے اعداد و شمار کافی خراب ہوئے جارہے ہیں، طلاق اور خلع کا تناسب بڑھے جارہا ہے۔
چند ہفتوں، چند مہینوں اور چند سالوں میں راستے جدا ہو جاتے ہیں۔
اور یہ وجہ بھی مختصر ہے۔
عدم برداشت
Intolerance
سمجھنے اور سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ برداشت کرنا سیکھ لیں تو ایک وقت آتا ہے جب لازم و ملزوم ہوجایا کرتے ہیں۔ مشکل سہی لیکن راز یہی ہے۔
64 views16:58
باز کردن / نظر دهید
2022-02-17 12:47:46 *بیٹا! تم پنسل جیسا بنو*

سبق آموز



ایک عالم دین پنسل سے بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے ان کا بیٹا قریب آیا اور تتلاتے ہوئے دریافت کیا : بابا آپ کیا لکھ رہے ہیں؟۔

اس عالم دین نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے سے فرمایا : بیٹا میرے لکھنے سے بھی زیادہ اہم یہ پنسل ہے جس سے میں بیٹھا لکھ رہا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تم بڑے ہو جاؤ تو تم اس پنسل کی طرح بنو۔

اس بچے نے تعجب آمیز نگاہوں سے باپ کو دیکھا اور پھر بڑے غور سے پنسل کو گھورنے لگا اور وہ اس کی کسی ایسی خصوصیت کو تلاش کرنے لگا جس کی بنیاد پر بابا جان اس سے پنسل جیسا بننے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

بڑی دیر تک پنسل کو دیکھنے کے بعد اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جو اس کے ذہن کو کھٹکتی اور اب بچے سے رہا نہ گیا آخر کار باپ سے معلوم کربیٹھا۔

بابا جان اس پنسل میں ایسی کون سی خصوصیت ہے جس کے سبب آپ کی خواہش یہ ہے کہ میں بڑا ہو کر اس جیسا بنوں۔

اس عالم نے کہا : اس پنسل میں ۵ اہم خصوصیات ہیں اور تم یہ کوشش کرو کہ بڑے ہو کر تمہارے اندر بھی یہیں خصوصیات پیدا ہوں۔

1۔ تم بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہو لیکن کبھی یہ مت بھولو کہ کوئی ہاتھ ہے جو تمہیں چلا رہا ہے اور تم سے یہ کارنامے کروا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے۔

2۔ کبھی کبھی جب اس کی نوک گھس جاتی ہے تو کٹر یا چاقو وغیرہ سے اسے تراشا جاتا ہے اگرچہ یہ ایک اذیت ناک چیز ہوتی ہے لیکن بہرحال اس کی نوک تیز ہو جاتی ہے اور پھر یہ اچھے سے کام کرنے لگتی ہے پس تمہیں بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ انسان کو اگر کوئی دکھ اور صدمہ پہونچتا ہے وہ اس لئے ہوتا ہے تا کہ تم بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکو۔

3۔ پنسل یہ اجازت دیتی ہے کہ اگر کچھ غلط تحریر ہو جائے تو تم ربر سے اسے مٹا کر اپنی غلطی کی اصلاح کر سکو پس تم یہ سمجھ لو کہ ایک غلطی کو صحیح کرنا غلطی نہیں ہے۔

4۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پنسل کی لکڑی اور اس کا خول لکھنے اور تحریر کرنے کے کام نہیں آتا بلکہ لکھنے کے کام ہمیشہ وہ مغز آتا ہے جو اس لکڑی کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے پس ہمیشہ تم اس چیز کا خیال رکھو کہ تمہارے جسم کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے بلکہ اس کے اندر چھپی تمہاری روح اور ضمیر قدر و قیمت والا ہے جسم نہیں۔

5۔ پنسل جب کچھ لکھتی ہے تو اپنے کچھ نقوش کاغذ پر چھوڑ دیتی ہے جو مدتوں کاغذ پر دیکھے جا سکتے ہیں پس تم بھی یہ بات سمجھ لو کہ تم جو بھی کام کرو گے اس کے نقوش تمہارے بعد باقی رہیں گے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم کیسے نقوش چھوڑ کر جاتے ہو پس کسی عمل کو انجام دینے سے پہلے کئی بار غور و فکر کر لو کہ کہیں تم کچھ غلط تو نہیں کر رہے ہو۔
72 views09:47
باز کردن / نظر دهید
2022-02-16 13:09:20 اخلاص اور شہرت پسندی کی بیماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


امام ابن قتیبہ نے اپنی مشہور کتاب "عیون الأخبار" (۱،۲۶۶)میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ مسلم افواج کے سپہ سالار حضرت مسلمہؒ نے ایک قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ چالیس روز گزر گئے مگر قلعہ ناقابلِ تسخیر بنا رہا۔ غوروخوض کے بعد انھوں نے ایک سرنگ کے راستے سے شہر میں داخل ہونے اور صدر دروازے کھولنے کی پلاننگ کی۔ کام بڑے جوکھم کا تھا، اس لیے کسی کو مجبور کرنے کے بجاۓ انھوں نے رضاکارانہ طور پر کسی کو بھی اپنا نام پیش کردینے کی ہدایت کی۔ مگر فوج میں سے کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔ شام ڈھلے ایک سپاہی آگے آیا، اس نے اپنا چہرہ جنگی خود میں چھپا رکھا تھا۔ وہ جان کی بازی لگا کر سرنگ کےراستے قلعے میں داخل ہوا اور مسلمانوں کے لیے صدر دروازہ کھول دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح مسلمانوں کو فتح سے نوازا۔

فتح کے بعد حضرت مسلمہ نے عام منادی کرائی کہ سرنگ میں داخل ہونے والا سپاہی سامنے آئے تاکہ علانیہ اس کے ساتھ اعزاز واکرام کا معاملہ کیا جاسکے، مگر کوئی نہیں آیا۔ تین دن تک مسلسل اعلان کیا جاتا رہا،مگر نتیجہ وہی رہا۔ تھک کر انھوں نے اعلان کرایا کہ میں نے اپنے خادمِ خاص کو اجازت دے دی ہے کہ سرنگ میں داخل ہونے والا مجاہد جس وقت بھی چاہے مجھ سے ملنے آجائے۔ وہ براہِ راست میرے پاس آسکتا ہے۔ اسے روکا نہیں جائے گا اور میں قسم دے کر اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے ایک بار ضرور آکر ملے۔

اس منادی کے بعد رات کے آخری پہر میں ایک شخص آیا اور خادم سے حضرت مسلمہ کے پاس لے چلنے کی درخواست کی۔ حاضرین وخدام نے پوچھا کہ کیا تم ہی سرنگ والے سپاہی ہو؟ اس نے کہا: "میں وہ نہیں ہوں، لیکن میں تمھیں اس کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔" خادموں نے جاکر یہ بات حضرت مسلمہ کو بتائی تو وہ فی الفور ملنے کے لیے رضامند ہوگئے۔

ملاقات ہوئی تو اس آدمی نے کہا: "سرنگ والے سپاہی نے آپ سے ملنے کی تین شرطیں رکھی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا نام خلیفۃ المسلمین کے سامنے ذکر نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اسے کسی قسم کا انعام نہ دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اس سےپوچھا نہ جائے کہ وہ کون ہے، کس قبیلے سے ہے اور کہاں اس کا گھر ہے۔" حضرت مسلمہ نے تینوں شرطیں مان لیں تو اس آدمی نے کہا: "سرنگ والا سپاہی میں ہوں۔"
اور چلا گیا۔

راوی کہتا ہے کہ اس واقعے کے بعد سے حضرت مسلمہ کا معمول تھا کہ اکیلے نماز پڑھتے یا جماعت کی امامت کرتے، وہ نماز کے بعد بہ آوازِ بلند یہ دعا ضرور مانگتے تھے کہ "اے اللہ، میرا حشر، اس سرنگ والے سپاہی کے ساتھ فرما۔ اے اللہ اپنے گمنام بندے کو اپنی بہشت میں جگہ دے کر اس کا شایان شان اکرام فرما۔"

جب بھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں، عجیب کیفیت دل پر طاری ہوجاتی ہے۔ کیا آج ہماری صفوں میں کچھ سرنگ والے دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا ہماری تحریکوں اور جماعتوں میں کچھ سرنگ والے موجود ہیں؟ کیا ہمارے اداروں میں کچھ سرنگ والے موجود ہیں؟ دوسروں کو چھوڑیے، کیا ہم خود سرنگ والے ہیں یا اس جیسا بننے کا حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں؟

اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے ڈر لگتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے
( منقول)
76 views10:09
باز کردن / نظر دهید