Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 6

2022-02-07 08:48:48 *چادر میری عظمت لوگو برقعہ میری شان*
شگفتہ سبحانی (مالیگاؤں)

سب کا اپنا پہناوا ہے سب کی اپنی جان
گھونگھٹ پہنے ہر اک دولہن دیکھے ہندوستان
میرا گھونگھٹ میری چادر برقعہ میری آن
برقعہ سے پھر کیوں آپتتی بولو لوگ مہان ؟

سیتا پہنے ساڑی تن پہ ایسی اس کی مرضی
گیتا پہنے لال چُنریا جیسی اس کی مرضی
ہر اک کا ارمان الگ ہے سب کی اک پہچان
مسلم کی پہچان ہے برقعہ، برقعہ ان کی آن

دھوتی کوئی پہنے کوئی ٹوپی کا دیوانہ
جیکٹ پہنے کوئی، کوئی گاؤن کا پروانہ
سب کا اپنا اپنا فیشن اپنی سب کی آن
مسلم کی پہچان ہے برقعہ، برقعہ ان کی شان

برموڈا،پہنے کوئی تھری پیس پہن کر آۓ
لمبا کرتا پہنے کوئی مفلر میں اتراۓ
بنگالی، گجراتی ان کی اپنی ہی پہچان
چادر ان کی عظمت برقعہ ہر مسلم کی جان

کوئی پہنے ٹی شرٹ، شارٹس کسی کے من کو بھاۓ
بھگوا چادر پہنے کوئی سبز پہن کر آۓ
یہ تو سب کی مرضی اپنی ان کی اپنی آن
کیسا ہندوستان بنا یہ کیسا ہندوستان ؟

نہرو جی کے تن پر میں نے دیکھی تھی شیروانی
گاندھی جی کو دھوتی پہنے، تن پہ دیکھی کھادی
لال بہادر شاستری جی کو دیکھا ٹوپی پہنے
سب کا ہی پہناوا الگ تھاوہ تھا ہندوستان


ہندوستان کی تہذیبوں میں ہندو مسلم ہیرا
سِکھ بھی ہیں عیسائی بھی ہیں جن کا الگ سویرا
مسلم بھائی چارہ یہ تھا اپنادیش مہان
کیسا عالیشان تھا بھارت سُندر ایک جہان

چادر اپنی عظمت سن لو ہندوستانی لڑکی
برقعہ اپنی عزت، یہ پہناوا اپنی مرضی
برقعہ کی عظمت پہ لاکھوں کالج ہیں قربان
برقعہ اپنی شان ہے لڑکی
برقعہ اپنی شان
118 views05:48
باز کردن / نظر دهید
2022-02-03 08:00:30 ۞ہماری روایات۔۔۔۔۞
* : - تابش سحر*

⚝: - دوستوں کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد بِل ادا کرنے کی طلب جتانا اور اندر ہی اندر کترانا ہماری تہذیبی روایت رہی ہے، اس سلسلے میں کھانا کھانے کے بعد دیر تلک ہاتھ دھوتے رہنا بہترین راہِ نجات رہی ہے۔

⚝: - خواتین کی زبان قینچی کی طرح چل رہی ہو اور اذان ہوجائے تو وہ بات حرفِ آخر اور سچّی ہوتی ہے پھر چاہے اس بات کا سر ہو نہ پیر۔

⚝: - ابّا جان کھانے پینے کی کوئی چیز لے کر گھر لوٹ آئے اور گھر میں مہمان ہو تو وہ چیز اسی صورت میں مہمانوں کو پیش کی جائے گی جبکہ وہ مہمان امّی جان کی نگاہ میں وقعت و اہمیت رکھتے ہوں بصورتِ دیگر باورچی خانے میں مہمانوں کے جانے تک چھپا دی جائے گی۔

⚝: - گھڑی کا سیل ڈاؤن ہوجائے تو ہم اسے نکال کر زبان سے چَکھتے ہیں پھر اسے دوبارہ لگا کر جانچتے ہیں اور روایات کی لاج رکھتے ہوے گھڑی بھی ٹِک ٹِک شروع کردیتی ہے۔

⚝: - "نازکی ان کے لبوں کی کیا کہیے" جیسے رومانویت کی انتہا کو پہنچے ہوے اشعار پڑھاتے وقت استاد محترم فرمان جاری کرتے ہیں "شاعر' عشقِ حقیقی میں ڈوب کر یہ شعر کہہ رہا ہے۔"

⚝: - پھوپھی جان اور امّی جان کے مابین مسئلہ یا مسائل ہوتے ہیں مگر صلاحیت مند امّی جان' اس مسئلے کو طول دیتی ہے اور بچوں کی نظر میں بھی پھوپھی جان کو دشمن بنا کر دم لیتی ہے۔

⚝: - پھیکی دال اور روٹی کے ساتھ آلو چِپس، چوڑا، چٹنی یا ٹھیسہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا سترپوشی کے لیے قمیص کے ساتھ پاجامہ۔

⚝: - ہم جیسی کرنی ویسی بھرنی پر اعتقاد رکھتے ہیں سو کسی نے شادی کے رقعے پر "مع اہل و عیال" کے بجائے "مع فرزندان" کی دعوت دی ہے تو ہمارے رقعے پر بھی "مع فرزندان" ہی لکھا ہوگا پھر چاہے ہماری حیثیت سارے عالم کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کی ہو۔

⚝: - چھوٹے بھائی یا بہن کو بادلِ ناخواستہ اپنے بڑے بھائی یا بہن کے استعمال شدہ کپڑے پہننے پڑتے ہیں، بڑے بھائی یا بہن کو نصیب سے بس یہی چیز مثبت ملی ہے۔

⚝: - ہم اسراف اور فضول خرچی کبھی پسند نہیں کرتے لہذا الائچی، لونگ، شاہ زیرا جیسی چیزوں کے لیے کبھی برتن یا ڈبّے نہیں خریدتے بلکہ آئس کریم وغیرہ کے خالی ڈبّوں کو قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔

⚝: - گھر کا داماد، ننیہالی رشتےدار یا کوئی معزز مہمان تشریف لائے تو شیشے کے گلاس میں پانی پیش کیا جاتا ہے جبکہ دیور دیورانی، جیٹھ جیٹھانی جیسے رشتےداروں کو اسٹیل کے گلاس میں پانی پلانے میں کوئی قباحت نہیں۔

⚝: - پاجامے میں ناڑا ڈالنے، فولادی اشیاء کی آئلنگ اور جوتے کی پالش کے لیے اس ٹوتھ برش کا استعمال کیا جاتا ہے جس نے اپنے فرائض اصلیہ سے سبکدوشی اختیار کرلی ہو۔

⚝: - وہ لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہیں جو فرش کی صفائی کے لیے باضابطہ "پوچھا" خریدتے ہیں جبکہ ہماری روایات کا تقاضہ تو یہی ہے کہ پھٹے پرانے کپڑوں کو بطور پوچھا استعمال کیا جائے اور الحمد للہ عوام کی اکثریت روایت کی پاسداری کررہی ہے۔

⚝: - اچانک زخم لگ جائے تو ہم ایسے حکیم و دانا' فوری علاج {فرسٹ ایڈ} کے طور پر بہتے خون کو چائے کی پتّی سے روکتے ہیں۔

⚝: - سڑک پر کوئی بندہ اپنے موٹر سائکل کی ہیڈ لائٹ چالو رکھ کر گزرنے لگے تو وضعدار انسان بھی مخصوص اشارے کرتے نظر آتے ہیں۔

⚝: - کسی شناسا سے پیسے لینے کے بعد شمار کیے بغیر جیب میں رکھ دیں گے وہ کہے گا "ارے بھائی گِن تو لو!" ہمارا جواب "ارے کیسی بات کررہے ہیں آپ؟" پھر اس شخص کے جاتے ہی جیب سے پیسے نکال کر دو بار شمار کریں گے۔

⚝: - پیسوں کے معاملے میں ہم بہت محتاط ہوتے ہیں اسی لیے اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے بعد شمار ضرور کریں گے مبادا کہ مشین بھی ہماری ذہنیت اور سوچ کے مطابق چل پڑی ہو۔

⚝: - عید کی خریداری رمضان سے قبل ہی کیوں نا مکمّل ہوجائے، چاند رات کو ضرور بازار جائیں گے پھر بیشک جیب میں پھوٹی کوڑی ہی کیوں نہ ہو۔

⚝: - اولاد چاہے چاند پر پہنچ جائے مگر بوقتِ غضب امّاں جان کے پاس کوئی نہ کوئی مثال ہوتی ہی ہے جیسے فلاں کے بیٹے کو دیکھو سورج پر پہنچ گیا ہے اور تو اتنا پڑھ لکھ کر چاند پر پیر پسارے بیٹھا ہے۔

⚝: - روزانہ خواتین گھر سے باہر نکلتی ہیں مگر جب کوئی دور کی خالہ انہیں یہ کہہ دے کہ تم تو ہمارے گھر آتی ہی نہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے "باہر نکلنا ہوتا ہی کہاں ہے۔"

⚝: - جب ہم کسی کے یہاں جائیں اور وہ شخص کھانے پینے کی کوئی چیز پیش کردے تو ہمارا قومی جواب ہوتا ہے "ارے اس کی کیا ضرورت تھی؟" جبکہ نیّت' کھانے پینے کی چیزوں میں دھنسی ہوی ہوتی ہے۔

⚝: - برصغیر کی پاکیزہ روایتوں میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ بےتکلف افراد دعوتوں میں تناول طعام کے بعد شاپر لے کر دیگ تک پہنچ جاتے ہیں تاکہ بریانی گھر لے جانے کی کوئی سبیل ہی نکل جائے۔
116 views05:00
باز کردن / نظر دهید
2022-02-03 07:58:58 ہم خود کو نظرانداز تو نہیں کررہے؟
: - تابش سحر
ہر انسان' کائنات کے چھپے ہوے رازوں میں سے ایک راز ہے، ہر وجود ایک پہیلی ہے اور ہر انسانی مورت ایک معمّہ۔ ظاہر کی آنکھ' باطن کی گہما گہمی کا نظارہ نہیں کرسکتی، لفظوں کے ترازو میں جذبات کی پیمائش امرِ محال ہے، چہرے کی شادابی اکثر فریبِ زندگی کا سبب بنتی ہے۔ کسی کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خوش و خرّم اور اپنی زندگی سے مطمئن انسان ہے بسااوقات مسکراہٹ' ریگستان کا وہ سراب ہوتی ہے جسے ہم آبِ حیات سمجھتے ہیں۔ کسی کا کھنکھتا ہوا قہقہ' ہمیں زندگی سے بھرپور معلوم ہوتا ہے جبکہ وہ انسان' اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہوتا ہے۔ کسی کا لب و لہجہ ہمیں متاثر کرتا ہے، پیامِ زندگی دیتا ہے، امید دلاتا ہے جبکہ حقیقی زندگی میں وہی انسان اپنی زندگی سے مایوس سرجھکائے بیٹھا ہے۔ زرق برق پوشاک، توانا جسم، مال و دولت کی ریل پیل، حسن کی جلوہ نمائی اور عقل و خرد کی ہنگامہ آرائی کی بنیاد پر کامیابی کے فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔ مادّی ترقّی کے بغیر زندگی کا سفر آسان نہیں مگر قدم اٹھانے کا جذبہ، قسمت سے پنجہ آزمائی کی جرأت اور راستے سے محبّت وہ چیزیں ہیں جو کسی بازار میں دستیاب نہیں بلکہ دل اور روح کی مرہونِ منّت ہے۔ انہیں دونوں کی کرم فرمائی سے انسانی ذات پراسرار ہے، پہیلی ہے، معمہ ہے اور ایسا راز ہے جس کی حقیقت تک پہنچنا آسان کام نہیں۔

زندہ رہنے کے لیے جس طرح روٹی کپڑا مکان کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح جذباتی بہبود اور روحانی ترقی بھی انتہائی ضروری ہے۔ مردہ دل اور زخمی روح' بہار کو خزاں میں تبدیل کردیتی ہے، سب کچھ ہوتے ہوے بھی' انسان کے پاس کچھ نہیں ہوتا، جس کے سبب مایوسی اور احساسِ کمتری جیسے خوفناک عفریت حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر انسان اونچی عمارتوں سے چھلانگ لگاتا ہے یا خود کو سپردِ آتش کردیتا ہے، کوئی غرقابی کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی پھندا لگا کر آپ ہی اپنی جان قربان کردیتا ہے۔ درجنوں ایسے واقعات سن کر ہوش میں آنے اور جاگنے کی ضرورت ہے، دولت اور شہرت کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم کون کیا ہیں؟ کیا ہے؟ ہمارا مقصدِ زندگی کیا ہے؟ ہم کیوں دوسروں کی برابری کریں؟ دل میں اضطراب ہے تو کیوں؟ روح بےقرار ہے تو اس کا کیا علاج؟ اچھی زندگی کی آس میں بھاگ دوڑ کرنا بری بات نہیں مگر اس بھاگ دوڑ میں اپنے آپ کو نظرانداز کردینا خود کو ہلاک کردینے کے مترادف ہے، جب ہم جسم کی بھوک مٹانے کے لیے سو جتن کرتے ہیں تو روح اور دل کو کیوں بھوکا رکھیں؟۔ سفر جاری رکھیں! مگر اگلے پڑاؤ پر یہ ضرور سوچیں کہ ہم کہیں خود کو نظرانداز تو نہیں کررہے؟
113 views04:58
باز کردن / نظر دهید
2022-01-23 20:08:15 *اس پوسٹ کو صرف مذاق کی* حد تک نہ سمجھئے گا یہ سب _کچھ ہو رہا ہے آپ نے_ غور نہیں کیا .......!
_

*ٹیکنالوجی*

*2032 میں پیزا آرڈر کرنا*

کالر: کیا یہ پیزا ھٹ ہے؟

*گوگل: نہیں جناب ، یہ گوگل* پیزا ہے۔
*کالر* _: معذرت ، میں نے_ غلط نمبر ڈائل کیا ہوگا۔
*گوگل: نہیں جناب ، گوگل* نے پیزا ھٹ کو پچھلے مہینے خریدا تھا۔
*کالر: ٹھیک ھے. میں* ایک پیزا آرڈر کرنا چاہتا ہوں

*گوگل: کیا آپ اپنا* وھی پسندیدہ پیزا آرڈر کرنا چاہتے ھیں ، جناب؟

*کالر: میرا پسندیدہ* پیزا تم کیسے _جانتے ہو؟ _

*گوگل: ھماری کالر آئی* ڈی ڈیٹا شیٹ کے مطابق ، آپ نے پچھلی 12 مرتبہ ایک موٹی پرت پر تین _چیزوں ، ساسیج ، پیپیرونی_ ، *مشروم اور میٹ بالز کے ساتھ* ایک پیزا منگوایا۔

*کالر: بہت* خوب! میں یہی آرڈر کرنا *چاہتا ہوں۔ *

*گوگل: کیا میں تجویز* کرسکتا ہوں کہ اس بار ویجیٹیبل پیزا منگوائیں؟

_کالر: کیا؟ میں سبزی والا_ پیزا نہیں کھانا چاہتا!

*گوگل: جناب آپ کا کولیسٹرول* اچھا نہیں ہے۔

*کالر: تم کس طرح جانتے ھو* ؟

*گوگل: آپ کے میڈیکل ریکارڈ* سے ہمارے پاس پچھلے *7 _سالوں* کا آپ کے خون_ کے ٹیسٹ کا نتیجہ ہے۔

*کالر: ٹھیک ہے ، لیکن میں آپ* کی بوسیدہ سبزی والا پیزا نہیں _چاھتا! میں پہلے ھی اپنی_ کولیسٹرول کی دوائی لیتا ہوں۔

*گوگل: معاف کیجئے جناب* ، لیکن آپ نے باقاعدگی سے اپنی دوائیں _نہیں لیں۔ ہمارے ڈیٹا_ بیس کے مطابق ، آپ نے 4 مہینے *پہلے بووٹس فارمیسی سے* ایک بار 30 کولیسٹرول کی گولیوں کا ایک باکس خریدا تھا۔

*_کالر:* میں نے ایک اور فارمیسی_ سے مزید خریداری کی۔

*گوگل: یہ آپ کے کریڈٹ کارڈ* کے ریکارڈ پر ظاہر نہیں ھو رہا-

*کالر: میں نے نقد رقم ادا کی* ۔

*گوگل: لیکن آپ نے اپنی بینک* اسٹیٹمنٹ کے مطابق کافی رقم نہیں نکلوائی۔

*کالر: میرے پاس نقد رقم* کے دوسرے ذرائع ہیں۔

_گوگل: یہ آپ کے حالیہ ٹیکس_ *گوشواروں پر ظاہر نہیں ہوتا* ، جب تک کہ آپ نے کسی غیر قانونی طریقے سے پیسہ کمایا ہو

*کالر: یہ کیا بکواس ہے! *

*گوگل: مجھے افسوس ہے* جناب ، ھم ایسی معلومات _صرف اور صرف آپ کی مدد_ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔


کالر: بس بہت ہو چکا! میں *گوگل ، فیس بک ، ٹویٹر ، واٹس* ایپ اور دیگر سے تنگ آ چکا ہوں۔ میں انٹرنیٹ ، ٹی وی کے بغیر کسی جزیرے میں جا رہا *ہوں۔ جہاں نہ فون کی کوئی* سہولت ہے اور نہ مجھ پر جاسوسی کرنے والا کوئی ھے۔

*گوگل* : لیکن آپ کو *پہلے اپنے پاسپورٹ کی تجدید کی ضرورت* ہے۔ اس کی میعاد 6 ہفتوں پہلے ختم ھو چکی ھے۔

*کالر* : بھاڑ میں جاے ( _بیچ میں_ _سے کسی اور سے بات_ _کرتے ھوے_ ) جانو ویٹ کرنا پڑے گا تھوڑا، پیزا لینے خود جانا پڑے گا

*گوگل* : سر، یہ جانو کونسے والی ھے؟ *ھمارے ریکارڈ کے* مطابق آپ *یہ لفظ 15مختلف نمبرز* پہ کال اور میسیجز میں استعمال کرتے ھیں،مگر ان میں سے کوئی بھی نمںبر آپ کی اپنی لوکیشن سے قریب نہیں ھوتا،خاص کر رات کو ......

*5 G* _Future_ .... ۔۔۔۔۔۔۔ *میں* *خوش آمدید*
54 views17:08
باز کردن / نظر دهید
2022-01-13 20:36:14 فلسطین کے ایک سکول میں استانی نے بچوں سے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعام کا وعدہ کیا کہ جو بھی فرسٹ آیا اس کو نیا جوتا ملے گا۔ ٹیسٹ ہوا سب نے یکساں نمبر حاصل کیے اب ایک جوڑا سب کو دینا نا ممکن تھا اس لیے استانی نے کہا کہ چلیں قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کا بھی نام نکل آیا اس کو یہ نیا جوتا دیں گے اور قرعہ اندازی کے لیے سب کو کاغذ پر اپنا نام لکھنے اور ڈبے میں ڈالنے کو کہا گیا۔

استانی نے ڈبے میں موجود کاغذ کے ٹکڑوں کو مکس کیا تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہوجاۓ اور پھر سب کے سامنے ایک ٹکڑا اٹھایا جونہی کھلا تو اس پر لکھا تھا وفا عبد الکریم سب نے تالیاں بجائیں وہ اشکبار آنکھوں سے اٹھی اور اپنا انعام وصول کیا۔ کیونکہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں اور جوتے سے تنگ آچکی تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں لاچار تھی اس لیے جوتوں کا یہ انعام اس کے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔

جب استانی گھر گئی تو روتی ہوئی یہ کہانی اپنے شوہر کو سنائی جس پر اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ رونے کی وجہ دریافت کی تو استانی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ مجھے رونا وفا عبد الکریم کے جوتوں سے زیادہ دیگر بچوں کے احساس اور اپنی بے حسی پر آتا ہے۔ جب میں نے ڈبے میں موجود دیگر کاغذ کے ٹکڑوں کو چیک کیا تو سب نے ایک ہی نام لکھ دیا تھا “وفا عبد الکریم” ان معصوم بچوں کو وفا عبد الکریم کے چہرے پر موجود لاچاری کے درد اور کرب محسوس ہوتا تھا لیکن ہمیں نہیں جس کا مجھے افسوس ہے۔

میرے ایک استاد بتایا کرتے تھے کہ بچوں کے اندر احساس پیدا کرنا اور عملاً سخاوت کا درس دینا سب سے بہترین تربیت ہے۔ ہمارے کئی اسلاف کے بارے میں کتابوں میں موجود ہے کہ وہ خیرات، صدقات اور زکوة اپنے ہاتھوں سے نہیں دیتے بلکہ بچوں کو دے کر ان سے تقسیم کرواتے تھے جب پوچھا گیا تو یہی وجہ بتائی کہ اس سے بچوں کے اندر بچپن سے انفاق کی صفت اور غریبوں و لاچاروں کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

منقول
_____
28 views17:36
باز کردن / نظر دهید
2022-01-13 03:39:59 ترک خلافت عثمانیہ کے دور کی کچھ حیاء و عفت سے بھری دلچسپ و خوبصورت عادات کا تذکرہ
( 1 ) قہوہ اور پانی_
جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ھے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے اور اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ھے .
( 2 ) گھر کے باہر پھول_
اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ھے آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھتے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے لہذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں اور اگر آپ پیغام نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش آمدید !
( 3 ) ہتھوڑا (کُنڈی)_
گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل ( گھنٹی نما ) ہتھوڑے رکھے ہوتے . ایک بڑا ایک چھوٹا اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازه کھولتی تھی۔
( 4) صدقہ عثمانی_
ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا۔
( 5 ) تریسٹھ سال_
اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے ؟؟؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی - بلکہ یہ کہتا بیٹا حد سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ الله الله كيسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے !!!
127 views00:39
باز کردن / نظر دهید
2022-01-07 00:39:01 پرانے وقتوں کی بات ہے، ایک غریب شخص کام کاج کی تلاش میں مختلف شہروں کی خاک چھانتا رہا مگر اسے کوئی بھی کام نہ مل سکا.
تھک ہار کر وہ چرچ میں چلا گیا، اور اونچی آواز میں کہنے لگا "خداوندا تو مجھے کب تک غریب رکھے گا"
پادری نے جب یہ الفاظ سنے تو اس شخص کو ڈانٹا کہ ایسے دعا نہیں کرتے. وہ غریب شخص کہنے لگا کہ ٹھیک ہے پھر آپ مجھے کوئی کام دے دیں، تاکہ میں یہ الفاظ پھر نہ دہرا سکوں.
پادری کہنے لگا ٹھیک ہے مجھے اس چرچ کے لیے ایک کاتب کی ضرورت ہے، جو یہاں آنے جانے والوں کے علاوہ چرچ کے اخراجات کا حساب لکھا کرے ، تم یہ کام سنبھال لو ماہانہ پچاس ڈالر کے علاوہ کھانا اور رہائش بھی میرے ذمے ہوگی.
اس شخص نے فوراً حامی بھر لی، پادری نے اسے کھاتہ رجسٹر اور قلم دے دیا، اور یوں وہ شخص چرچ کا کاتب بن گیا. وہ روزانہ پادری کو ہر چیز کے متعلق تفصیل سے بتاتا رہتا تھا، جب اسے کام کرتے ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا تو پادری نے کہا ذرا اپنا حساب کتاب لکھنے والا رجسٹر لے کر آؤ تاکہ اس ہفتے کی آمدن اور اخراجات کا موازنہ کیا جاسکے، وہ شخص کہنے لگا جناب مجھے تو لکھنا پڑھنا آتا ہی نہیں، میں تو زبانی ہر چیز کا حساب رکھتا ہوں.
پادری نے کہا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم لکھ پڑھ نہیں سکتے، مجھے تو ایسے شخص کی ضرورت تھی جو پڑھا لکھا ہو، تم میری طرف سے یہ پچاس ڈالر لو اور جاؤ جاکر کوئی دوسرا کام تلاش کرو.
وہ شخص پچاس ڈالر لیکر جب چرچ سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ دو شخص آپس میں باتیں کررہے تھے، ایک شخص دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ میں نے تمھیں پچاس ڈالر قرض دیے ہیں، اب تم ان سے کوئی تجارت کا کام کرو، اپنا نفع حاصل کرو اور بعد میں مجھے میری اصل رقم لوٹا دو.
اس شخص نے جب یہ گفتگو سنی تو سوچنے لگا کہ پچاس ڈالر تو میرے پاس بھی ہیں، مجھے بھی تجارت کرکے دیکھنی چاہیے..
وہ گیا اور بازار میں اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا، اس نے دیکھا کہ اس شہر کے امرا ٹماٹر سے روٹی کھاتے ہیں مگر عجیب بات تھی کہ ٹماٹر وہاں اگتا نہیں تھا، دور دراز کے علاقوں سے جب ٹماٹر آتا تو طویل سفر اور گرم موسم کے باعث رستے میں خراب بھی ہوجاتا تھا اس وجہ سے اس کام میں سرمایے اور وقت کے خسارے کے پیش نظر بس دو تین تاجر ہی یہ کام کرتے تھے، اور وہ منہ مانگے دام بھی وصول کرتے تھے.
اس شخص نے دور دراز کے علاقوں سے ٹماٹروں کو یہاں لاکر فروخت کرنے کا ارادہ بنا لیا.
وہ پہلے بھی مختلف شہروں کا سفر کرتا رہا تھا، اسے پتا تھا کہ کہاں پر ٹماٹر سستا اور کثرت سے پایا جاتا ہے. وہ سیدھا وہاں ہی گیا، وہاں سے جب ٹماٹر خرید کر لایا اور بہت کم منافع کے ساتھ انہیں فروخت کرنا شروع کیا تو پہلے دن ہی سارے ٹماٹر ہاتھوں ہاتھ بک گئے اور اسے اچھا خاصا منافع بھی حاصل ہوا. اسے یہ کام پسند آگیا، اور پھر کرتے کرتے ایک دن وہ اس علاقے کا بڑا تاجر بن گیا. اس نے اپنے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے نوکر بھی رکھ لیے.
ایک دفعہ وہ سفر کرتے ہوئے کسی ایسی جگہ پر گیا جہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی تھی جس سے وہ نابلد تھا. وہ ایک ریستوران میں کھانا کھانے گیا تو اسے کھانوں کے نام پلے نہیں پڑ رہے تھے، اس نے اپنے ایک نوکر کو بلا کر کہا کہ ذرا ان کھانوں کے نام تو سمجھ کر مجھے بتاؤ، نوکر نے حیرانی سے کہا جناب آپ اتنے بڑے تاجر ہیں مگر آپ کو ہسپانوی زبان نہیں آتی، اس شخص نے کہا اس لیے کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں، تو نوکر نے کہا جناب آپ ان پڑھ ہوکر ایک بڑے تاجر ہیں، سوچیں اگر دو چار جماعتیں پڑھ لیتے تو پتا نہیں کتنے بڑے تاجر ہوتے اور آج نجانے کہاں ہوتے.
اس شخص نے جواب دیا ہونا کہاں تھا، اگر دو چار جماعتیں پڑھ جاتا تو آج پچاس ڈالر ماہوار پر چرچ میں پادری کا کاتب ہوتا..
31 views21:39
باز کردن / نظر دهید
2021-12-27 16:09:43 *دیوبند میں ایک شاہ جی عبد اﷲ تھے*
درویش، نیک اور صاحب نسبت بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنے گزر بسر کیلئے یہ معمول بنا رکھا تھا کہ روزانہ فجر کی نماز پڑھ کر سیدھے جنگل جاتے اور وہاں سے قدرتی گھاس کاٹ کر، اس کی ایک گٹھری بنا کر اپنے سر پر رکھ کر منڈی میں جاتے تاکہ اس کو بیچ کر حلال روزی حاصل کریں۔ چونکہ صاحب نسبت بزرگ اور خدا کے نیک بندے والے تھے اس لئے جو لوگ گھاس خریدنے والے ہوتے تھے، وہ شاہ جی کے انتظار میں رہتے کہ کب شاہ جی گھاس لائیں اور ہم ان سے گھاس خرید لیں۔
شاہ جی ایک خاص مقدار کی گھاس لاتے اور اس کو چار آنے میں بیچتے۔ چونکہ خریدار زیادہ ہوتے تھے، اس لئے جیسے ہی وہ شاہ جی کو آتا دیکھتے، فوراً ان سے خریدنے کیلئے دوڑ لگاتے اور شاہ جی کا اصول یہ تھا کہ جو شخص سب سے پہلے اس گٹھڑی پر ہاتھ لگا دیتا، وہ گٹھڑی اس کو بیچ دیتے اور اس سے چار آنے وصول کر لیتے، نہ چار آنے سے کم لیتے اور نہ زیادہ۔
چار آنے کا حسن انتظام:
ان چار آنے کو خرچ کرنے میں ان کا حسن انتظام یہ تھا کہ ایک آنہ غربا، فقراء اور مساکین پر صدقہ کر دیتے، ایک آنہ اپنی ضرورت کے لئے رکھ لیتے۔ ایک آنہ اپنی بیٹی کو دے دیتے اور ایک آنہ دارالعلوم دیوبند کے اکابرین اور بزرگوں کی دعوت کے لئے جمع کر لیتے ۔ (یہ تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے کی بات ہے، جبکہ آنہ بھی اپنی قدر رکھتا تھا) اس طرح اس چار آنے میں ان کے سارے کام ہو جاتے۔ دنیا کا گزر بسر بھی ہو رہا ہے، خدا کے راستے میں صدقہ بھی ہو رہا ہے، صلہ رحمی بھی ہو رہی ہے، کیونکہ بیٹی پر خرچ کرنے میں اس کے ساتھ ہمدردی اور صلہ رحمی ہے۔ علمائے کرام اور بزرگان دین کی خدمت بھی ہو رہی ہے۔ ان کی دعوت کے لئے بھی پیسے جمع کر رہے ہیں، یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔
علمائے کرام کی دعوت:
حضرت شاہ جی عبداﷲ اپنی آمدنی میں سے ایک آنہ جو علماء کی دعوت کے لئے رکھتے، جب وہ چار روپے جمع ہو جاتے تو اس وقت کے علماء یعنی *مولانا محمد قاسم نانوتویؒ* *مولانا رفیع الدینؒ*، *حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ*، *مولانا رشید احمد گنگوہیؒ* اور *مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ*
جیسے بزرگوں کی دعوت کرتے۔ کبھی تو اپنے یہاں کھانا پکا کر ان سب کو بلا کر کھلاتے اور کبھی دارالعلوم میں جا کر وہ رقم ان حضرات کو دے دیتے اور ان سے عرض کرتے کہ مجھے اچھا پکانا نہیں آتا اور پکانے کی فرصت بھی نہیں ہے۔ آپ حضرات اس رقم سے اپنی پسند کا کھانا پکا کر کھا لیں، بس یہ میری طرف سے دعوت ہے۔
دعوت کھانے کا اہتمام:
ان اکابر میں مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتویؒ ہر فن مولیٰ تھے۔ کھانا پکانا بھی جانتے تھے، سینا پرونا بھی جانتے تھے اور بہت سے کام کر لیتے تھے۔ چنانچہ دوسرے حضرات، مولانا محمد یعقوب صاحبؒ سے درخواست کرتے کہ آپ کھانا پکائیں۔ چنانچہ آپ پہلے غسل کرتے، دھلا ہوا لباس پہنتے، پھر بازار جا کر ان پیسوں سے سامان لا کر کھانا پکاتے، جب کھانا پک کر تیار ہو جاتا تو باقی حضرات بھی غسل و وضو کا اہتمام کرتے، پھر شاہ جیؒ کی دعوت تناول فرماتے۔
دعوت کے نیک اثرات:
یہ حضرات اکابر فرماتے تھے کہ شاہ جیؒ کی اس دعوت کا ہمارے اوپر یہ اثر ہوتا کہ ایک ایک مہینے تک ہمارا دل روشن ہو جاتا اور ہمارے دل میں آخرت کی تیاری کے جذبات ابھر آتے اور راتوں کو ہم مصلے پر کھڑے ہو کر خدا کی یاد میں گزارتے اور دل کی کیفیت بدل جاتی، قلب منور ہو جاتا اور ذکر الٰہی کرنے کو جی چاہتا۔ کھانے سے پہلے کی کیفیت اور کھانے کے بعد کی کیفیت میں نمایاں طور پر فرق محسوس ہوتا اور ایک دن کی دعوت کا ایک مہینے تک اثر رہتا۔
(بے مثال واقعات)
29 views13:09
باز کردن / نظر دهید
2021-12-23 20:10:26 تحریر کا عنوان
*اپنی کم تنخواہ پر غم نا کریں ہوسکتا ہے آپکو رزق کے بدلے کچھ اور دے دیدیا گیا ہو*

ایک بڑے محدث فقیہ اور امام وقت فرماتے ہیں کہ

○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*قد يكون الرزق خلقا أو جمالا*

رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت اچھا اخلاق یا پھر حسن و جمال دے دیا گیا ہو

○ *قد يكون الرزق عقلا راجحا*
*زاده الحلم جمالا وكمالاً*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت میں عقل و دانش دے دی گئی ہو اور وہ فہم اس کو نرم مزاجی
اور تحمل و حلیمی عطا دے

○ *قد يكون الرزق زوجا صالحا*
*أو قرابات كراما وعيالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے
کہ کسی کو رزق کی صورت میں بہترین شخصیت کا حامل شوہر یا بہترین خصائل و اخلاق والی بیوی مل جاے
مہربان کریم دوست اچھے رشتہ دار یا نیک و صحت مند اولاد مل جائے

○ *قد يكون الرزق علما نافعا*
*قد يكون الرزق أعمارا طوالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت علم نافع دے دیا گیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُسے رزق کی صورت لمبی عمر دے دی گئی ہو

○ *قد يكون الرزق قلبا صافيا*
*يمنح الناس ودادا ونَوالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا پاکیزہ دل دے دیا گیا ہو جس سے وہ لوگوں میں محبت اور خوشیاں بانٹتا پھر رہا ہو

○ *قد يكون الرزق بالا هادئا إنما المرزوق* *من يهدأ بالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ذہنی سکون دے دیا گیا وہ شخص بھی تو خوش نصیب ہی ہے جس کو ذہنی سکون عطا کیا گیا ہو

○ *قد يكون الرزق طبعا خيّرا*
*يبذل الخير يمينا وشمالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت نیک و سلیم طبع عطاکی گئی ہو۔ وہ شخص اپنی نیک طبیعت کی وجہ سے اپنے ارد گرد خیر بانٹتا پھرے

○ *قد يكون الرزق ثوبا من تقى*
*فهو يكسو المرء عزا وجلالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت تقوٰی کا لباس پہنا دیا گیا ہو اور اس شخص کو اس لباس نے عزت اور مرتبہ والی حیثیت بخش دی ہو

○ *قد يكون الرزق عِرضَاً سالماً*
*ومبيتاً آمن السِرْبِ حلالاً*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا عزت اور شرف والا مقام مل جائے جو اس کے لئے حلال کمائ اور امن والی جائے پناہ بن جائے

○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*كن قنوعاً و احمد الله تعالى*

○ پس رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
جو کچھ عطا ہوا
اس پر مطمئن رہو
اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہو

الہی بہترین ایمان اور نفس مطمئنہ کی سعادت عطا فرما
آمین اللھم آمین
47 views17:10
باز کردن / نظر دهید
2021-12-23 20:10:08 پریشان نہ ہوں ۔۔

کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔

کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔

جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔

بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔

اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔

کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔

کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔

اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔

انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔

نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔

اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا.

کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔

ہر حال میں خوش رہیں سلامت رہیں
44 views17:10
باز کردن / نظر دهید