Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 9

2021-09-27 20:23:32 فرنکفرٹ ائرپورٹ کے قریب ایک گاؤں جس کا نام tribor تھا وہاں کی رہائشی ایک بوڑھی عورت نے فرنکفرٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ کے خلاف عدالت میں کیس دائر کر دیا
جس کی وجہ عورت نے کچھ یوں بیان کی
رات کے وقت جہازوں کا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں رات کو سو نہیں سکتی، جس کی وجہ سے میری اکثر طبعیت خراب رہتی ہے
عدالت میں جج نے اُس بوڑھی عورت کی پوری بات سننے کے بعد عورت سے پوچھا کہ آپ اب کیا چاہتی ہیں؟
اس شور کے عوض آپ ائرپورٹ سے کچھ معاوضہ حاصل کرنا چاہتی ہیں یا ائرپورٹ سے دور ایک عدد گھر حاصل کرنا چاہتی ہیں ؟
عورت نے جواب میں کچھ یوں کہا
میں یہاں اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہوں اور عرصہ دراز سے یہاں زندگی گزار رہی ہوں، چونکہ اب میری طبعیت اس قدر شور برداشت نہیں کر سکتی، اسلئے اس مسئلے کا کوئی اور معقول حل تلاش کیا جائے
اور ساتھ یہ بتایا کہ نا تو مجھے کوئی پیسوں کی ضرورت ھے اور نا ہی میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں جانا چاہتی ہوں

اس بات سے اُس وقت کے موجودہ حکام بھی بہت پریشان ہوئے کہ اب اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ھے نا تو عورت یہاں سے جانا چاہتی ھے اور نا اتنے بڑے ائرپورٹ کو کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ھے
ائرپورٹ حکام نے عورت کو اپنے کیس سے پیچھے ہٹ جانے کیلئے بےشمار فرمائش پیش کی، ائرپورٹ سے دور اعلیٰ شان گھر کی فرمائش کی اور ساتھ بڑی رقم دینے کی فرمائش بھی کی لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی

آخرکار تھک کر جج نے کہا اگر ہم آپ کی نیند کے ٹائم کو مینج کر لیں، مطلب رات کا ایک مخصوص ٹائم جب آپ سو رہی ہو تب ائرپورٹ پر کوئی فلائٹ نہیں اترے گی
کیا آپ کو یہ فیصلہ منظور ھے جس سے وہ عورت مطمئن ہوگئی، اور تب سے لے کر آج تک فرنکفرٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر رات 12 سے لے کر صبح 5 بجے تک کوئی فلائٹ نہیں اترتی

یہ ھے وہ عزت وہ مقام وہ انصاف جو جرمنی کی حکومت اور جرمنی کی نظامِ عدل اپنے عوام کو دیتا ھے اس طرح ھر انسان کے حقوق برابر ہیں اور ھر ایک کیلئے انصاف کا معیار یکساں ہے۔
(نقل وچسپاں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
43 views17:23
باز کردن / نظر دهید
2021-09-25 21:27:47 بچوں کی تربیت کی اپنی ایک ABC ہے. جو مشاہدے پر زبان بنتی ہے. مشاہدے کی اس زبان کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں.

خاتون نے فرش صاف کرتے راستے میں بالٹی رکھی تھی کہ اچانک ان کو کچن میں جانا پڑ گیا اور اسی وقت فون سنتے میاں کمرے سے نکلے اور ان کو بالٹی سے ٹھوکر لگی. کھیلتے کھیلتے بچوں کا دھیان ادھر چلا گیا.

اب دو ردعمل ممکن ہیں. ایک میں بیوی جلدی سے کچن سے آئی اور پوچھا آپ کو چوٹ تو نہیں لگی اور میاں معذرت کرے میرا دھیان نہیں تھا سارا فرش دوبارہ اب صاف کرنا پڑے گا. دوسرے میں میاں نے چیخ کر کہا یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے.؟ اور بیوی نے بھی آستین چڑھاتے کہا ایک ہی وقت میں کچن بھی دیکھو گھر بھی صاف کرو اور میدان گرم ہوگیا.

ایک صورتحال میں بچے مشاہدے سے سیکھیں گے غلطی تسلیم کر لو اور دوسری طرف سیکھیں گے کچھ بھی ہو جائے غلطی تسلیم نہیں کرنی. ایک طرف کا مشاہدہ بچوں کو مسکراہٹ دے گا دوسری طرف سہم جائیں گے.

تربیت وہ مشاہدہ ہے جو عمل کے اظہار کی زبان بنتی ہے. اسے انگریزی میں Antecedent behavior consequence کہتے ہیں. یعنی ABC جہاں اگر والدین تعلیم یافتہ اور تربیت کی ذمہ داری کی فکر رکھتے ہوں تو بچے کے عمل اور ردعمل کا حساب رکھتے ہیں. یہاں A کا مطلب ہے بچے کی ایک غلط حرکت سے پہلے وہ کیا کر رہا تھا؟ B کا مطلب ہے اُس نے ردعمل کیا دیا.؟ اور C کا مطلب ہے اس حرکت کے بعد کیا ہوا. یعنی اگر بڑے بچے نے چھوٹے بہن بھائی کے بال نوچ لئے تو آپ کے مشاہدے کی abc کیا ہے.؟

یہی اے بی سی پھر آپ کا ردعمل طے کرتی ہے جس پر بچہ دوبارہ وہ غلط رویہ دہراتا نہیں ہے. لیکن اگر آپ اے بی سی نہ جانتے ہوں تو یہ یاد رکھیں بچوں کا مشاہدہ بہت تیز ہوتا ہے. ان کی نظریں آپ کی زبان نہیں آپ کے عمل پر لگیں ہوتی ہیں. انہوں نے وہی دہرانا ہے.

24 views18:27
باز کردن / نظر دهید
2021-09-20 13:22:09
یہ والی جنریشن پتہ نہی کیا بنے گی ۔۔۔
146 views10:22
باز کردن / نظر دهید
2021-09-19 10:48:51
انگریز نے جب میسور فتح کیا تو جشن منعقد
کیا، جس میں خانساموں (ویٹرز) کو ٹیپو سلطان کے فوج کی وردیاں پہنا کر مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا؛

‏جس لباس پر ہمارے ہاں چوکیدار اور ڈی جی فخر کرتے ہیں؛ وہاں بھی چوکیدار کو وہی لباس پہناکر اس کی اصل جگہ پر کھڑا کیا گیا ہے۔
64 views07:48
باز کردن / نظر دهید
2021-09-19 01:33:23 * بہت ہی خوبصورت تحریر تھوڑا سا وقت نکال کر ضرور پڑھیں ہو سکتا ہے آپ کے کسی مسئلے کا حل ہو *

۔۔۔۔۔۔۔اس کے گھر میں کچھ چیز یں حیران و پریشاں کر دینے والی تھیں۔پریشان کر دینے والی بات یہ تھی۔کہ قرآن کا ایک نسخہ کچن میں رکھا تھا جس پر تیل کے نشانات نمایاں تھے ۔اسے بار بار جیسے گیلے ہاتھوں سے پکڑا گیا ہو ۔
دوسرا نسخہ باہر باغیچہ کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا۔ اس کے اوراق بھی پس مردہ سے تھے۔
ایک نسخہ اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر تھا۔ تو ایک لاوئچ میں۔یقینا کئ دفعہ پیٹھ ہو جاتی ہو گی۔بے ادبی ہوتی ہوگی۔اسے زرہ احساس نہیں۔دل میں غبار سا اٹھا چہرہ متغیر ہو گیا ۔اس نے شاید بھانپ لیا تھا
تبھی بولی. دراصل بچے چھوٹے ہیں اور بڑا خاندان ہے۔ بے تحاشا مصروفیات میں ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔اس لئے جگہ جگہ قرآن رکھ دیئے ہیں جہاں زرا گنجائش ملتی ہے ۔اٹھاکرپڑھ لیتی ہوں ۔دراصل باجی مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور حل اسی میں ملتا ہے۔
میں کچھ سمجھ نہیں پائی۔۔وہ گویا ہوئ۔باجی اللہ نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتایا ہے۔یہ بات میرے ابا نے مجھے بتائ تھی۔انھوں نے کہا اس سے دوستی کر لو۔ہر معاملے میں اس سے پوچھا کرو ۔یہ کتاب تمھیں جواب دے گی ۔تمھارا ہر مسئلہ حل کرے گی۔
بس یہی سہیلی ہے میری اسی سے پوچھتی ہوں سب کچھ ۔اور یہ کتاب ہر مسئلہ کا حل بتا دیتی ہے۔

کئ مسئلے چند آیات ہی سے سلجھ جاتے ہیں۔ ان آیات پر میں نے ریڈ مارکنک کی ہوئ ہے۔جب مسئلہ پیش آۓ تو ان ساری آیات کو جلدی سے کنگال لیتی ہوں۔کبھی ذیادہ وقت بھی لگتا ہے۔اور کبھی کھولتے ہی میرے مسئلے کا حل سامنے مل جاتاہے۔تب میرے آنسو بہنے لگتے ہیں رب کی محبت میں
۔بس اسی لئے ان نسخوں کی یہ حالت ہے۔مثلا کل ہی میری نند آئی ہوئی تھی۔کھانا کھلا کر کچن کی طرف جا رہی تھی۔کہ اس کی کچھ باتیں کانوں میں پڑیں ۔غصے سے بری حالت ہوئی۔اتنی مشقت اور پھر یہ جزا ۔ایسے میں کیا کروں۔قرآن کھولا۔ایک آیت سامنے تھی۔برائ کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔کل ہی اپنے لئے بندے لائ تھی۔جا کر نند کو پہنا دیے۔اس کی حالت دیکھنے والی تھی ۔وہ کچھ دیر دیکھتی رہی۔پھر رو پڑی۔میں نے اسے گلے لگا لیا۔بولی بھابھی سسرال میں منفی ماحول نے منفی بنا دیا ہے۔ معاف کر دینا مجھے۔آپ واقعی بہت اچھی بھابھی ہیں بہنوں سے بھی بڑھ کر ۔اللہ تمھیں خوش رکھے۔آباد رکھےعجیب سرشاری عطا ہوئی ۔۔۔
آج جب آپ آۓ میں کھانا بنا چکی تھی۔دل میں خیال آیا کیسے پورا ہو گا اتنے میں۔قران کھولا لکھا تھا۔اگر شکر کرو گے تو میں بڑھا دوں گا۔میں نے پریشانی ہٹا کرشکر ادا کیا ۔ فریج میں دیکھا مٹر رکھے ہیں۔چاول نکالنے لگی کہ پڑوس سے بریانی کی ڈش آگئی۔ میاں آفس سے آتے حلیم ساتھ لیتے آۓ۔یعنی اللہ نے فوراً ہی مسئلہ حل کیا۔ بندوبست کر دیا۔
بس باجی ہر مشکل لمحے میں میرا رجوع اسی کی طرف ہوتا ہے۔کووڈ میں میاں کا کام چھوٹ گیا۔بڑی پریشانی ہوئی۔قران کھولا تو لکھا تھا استغفار کرو بدلے میں تمھیں بارش بھی دونگا۔مال اور اولاد کو بڑھاؤں گا۔اور باغات اور نہریں عطا کروں گا ۔میں تو حیران رہ گئی۔استغفار کے اتنے بڑے فائدے ۔سب گھر والوں کو جمع کیا ایک دوسرے سے معافی تلافی کی ۔پھر سوچ سوچ کر ہر اس شخص سے معافی مانگی۔جس سے گمان تھا کہ ہم نے کوئی زیادتی کی ہوگی۔ ساتھ ہی زبان سے بھی استغفرُللہ کہتے رہے ۔*سید الاستغفار* کا بھی ورد رہا ۔
آپ یقین جا نو ۔تین دن کے اندر ہی اس کے اثرات ظاہر ہوۓ۔ایک خاندان سےعرصے سے ناراضگی تھی ۔معافی تلافی کے بعد وہ سب گھر آۓ۔باتوں باتوں میں اس نے لیدر کمپنی کی پوسٹ خالی ہونے کا زکر کیا ۔ان کے تجربے کی بنیاد پر تین گنا تنخواہ اور کئی سہولیات کے ساتھ ان کی جاب پکی ہو گئی۔اور ناراض لوگوں کے راضی ہو نے سے جو سکون اترا ۔اسکا تو اندازہ ہی نہیں کئ برکتوں کی بارش اور خوشیوں کے باغ گویا ہاتھ آگۓ۔
وہ بہت سادگی سے قرآن کو سینے سے محبت سے لگاۓ بتاتی جا رہی تھی ۔اور میں شرمندہ تھی ۔آج تک قرآن سے ایسا سہیلی والا تعلق نہ تو بنا تھا۔اور نہ ہی ایسی رہنمائی میسر تھی۔اب دل کا غبار ندامت میں ڈھلا تو آنسؤوں کی صورت بہنے لگا۔۔کاش قرآن کی ظاہری رکھ رکھاؤ پر توجہ دی تھی اتنی ہی توجہ اسکی روح اور اصل پیغام پر دی ہوتی تو آج اس کے کے اصل پیغام سے ہی محروم نہ ہوتی ۔
الله رب العزت هم سب کو بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔
آمین ۔
105 views22:33
باز کردن / نظر دهید
2021-09-14 03:42:53 ﺑﮭﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ
ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﮮﮔﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺭﺩﻭﺋﮯ
ﻣﻌﻠﯽٰ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﮐﻮﺛﺮﻭﺗﺴﻨﯿﻢ ﻣﯿﮟ دُھلواﯾﺎ
ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﮈﺭﺍﺋﯽﮐِﻠﯿﻨﻨﮓ ﭘﺮ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔
ﺧﺎﻟﺺ ﻋﻠﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﺑﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﺗﻮ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺗﻔﺮﯾﺤﯽ ﺍﻭﺭ ﺛﻘﺎﻓﺘﯽ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ
ﭼﻠﻦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ ۔ ﺑﮩﺖ ﻋﺮﺻﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺐ
" ﻣﻐﻞ ﺍﻋﻈﻢ " ﺭﯾﻠﯿﺰ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ
ﺗﮏ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﻤﺎﺝ ﻣﯿﮟ ﻇﻞّ ﺍﻟﮩﯽ ، ﻋﺎﻟﻢ ﭘﻨﺎﮦ ،
ﺻﺎﺣﺐ ﻋﺎﻟﻢ ، ﺗﺨﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﻔﻆ
ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﺭﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ
ﺑﺎﺭ ﮨﻢ ﺳﯿﮑﻞ ﺭﮐﺸﺎ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ
ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭽﻠﮯ ﺭﮐﺸﺎ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺩﺳﺖ ﺑﺴﺘﮧ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ۔۔۔۔
ﻋﺎﻟﻢ ﭘﻨﺎﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮯ ﮔﺎ ۔۔۔؟
ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ "! ﻋﺎﺑﺪﺭﻭﮈ ، ﺳﯿﺎﺳﺖ ﮐﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﭘﺮ "۔
ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻣﻮﺩﺑﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺷﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ " ﻇﻞّ ﺍﻟﮩﯽ ! ﻏﻼﻡ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﻋﻄﺎﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ؟ " ۔
( ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻇﻞِّ ﺍﻟﮩﯽ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ
ﺻﺮﻑ ﺁﭨﮫ ﺁﻧﮯ ﺗﮭﮯ )
ﮨﻢ ﻧﮯ ﭼﺎﺭ ﺁﻧﮯ ﻣﺮﺣﻤﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ
ﺣﺴﺐ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﻓﺮﺷﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ
ﺑﻮﻻ " ﻋﺎﻟﻢ ﭘﻨﺎﮦ ! ﻋﻨﺎﯾﺖ ، ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ، ﻧﻮﺍﺯﺵ ،ﮐﺮﻡ ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﻨﺪﮦ ﭘﺮﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺮﯾﮧ ۔
ﺧﯿﺮ ﮨﻢ ﺭﮐﺸﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﮐﺸﺎ
ﭼﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻧﮧ ﻟﮯ ۔
ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺎﮞ ! ﭼﻠﺘﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ؟ "
ﺑﻮﻻ " ﻋﺎﻟﻢ ﭘﻨﺎﮦ ! ﺁﭖﺣﮑﻢ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﺗﻌﻤﯿﻞ ﺑﮭﯽﮨﻮ " ۔

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻐﻞ ﺁﻋﻈﻢ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ "
ﯾﻠﻐﺎﺭﮨﻮ" ۔
ﺍﺏ ﺟﻮ ﺭﮐﺸﺎ ﮐﯽ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺎ
ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺸﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺸﺘﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯﺍﻭﺭﺍﺱ
ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﯽ ﺁﮌ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﻏﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔ ﺳﻮ ﮨﻢ ﮈﺭ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺩﻡ ﺳﺎﺩﮬﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﮯ ۔
ﻏﺮﺽ " ﺳﯿﺎﺳﺖ " ﮐﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﺸﺎ ﮐﯽ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮈﺭﺗﮯﺍﺱ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺑﻮﻻ
" ﻇﻞّ ﺍﻟﮩﯽ ! ﯾﮧ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺟﯿﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ " ۔

*ﻣﺠﺘﺒﯽٰ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ*
83 views00:42
باز کردن / نظر دهید
2021-09-13 03:39:48 لکھتا ہے وہی ہر بشر کی تقدیر
وَالـلّٰـہُ عَـلٰی کُـلِّ شَـیْـئٍ قَـدِیْــرٌ

جس کے تابع ہیں جنّات و انسان
فَـبِــأَيِّ آلَاء رَبِّــكُــمَــا تُــكَــذِّبَــانِ

ابــتــدا ہے وہـی اور وہـی انــتــہــاء
وَتُـعِـزُّ مـن تـشـاء وَتُـذِلُّ مـن تـشـاء

‏تنہائی میں بھی رہو گناہ سے دور
ﻭَﺍﻟــﻠَّــﻪُ ﻋَــﻠِــﻴــﻢٌ ﺑِـﺬَﺍﺕِ ﺍﻟــﺼُّــﺪُﻭﺭِ

ہے تجھکو بس طلب کی جوت
کُــلُّ نَــفْــسٍ ذَائــقــة الْــمَــوْتِ

انساں کو ہے لاحاصل کا جنون
قَـــدۡ أَفۡـــلَـــحَ ٱلۡـــمُـــؤۡمِـــنُـــونَ

غیب سے نکال دیتا ہے وہ سبیل
حَـسْـبُـنَـا الـلَّـهُ وَنِــعْــمَ الْـوَكِـيـلُ

ہر ایک کو دیتا ہے صلہ بہترین
إِنَّ الـــلَّـــهَ مَـــعَ الــصَّــابِــرِيــنَ

اس سے مانگو وہ ہے بڑا کریم
فَـــاِنَّ الــلّٰــهَ غَــفُــوْرٌ رَّحِــیْــمٌ

تخلیقِ انسانی کا ہے مقصد
قُــــلْ هُــــوَ الـــلّٰـــهُ اَحَــــدٌ

تـیـری رضـا میں ہی ہے سـکـون
فَـإِنَّـمَـا يَـقُـولُ لَـهُ كُـن فَـيَـكُـونُ
129 views00:39
باز کردن / نظر دهید
2021-09-05 15:19:16 ایک حاجی صاحب کا واقعہ ہے وہ کافی بیمار تھے۔

کئی سالوں سے ہر ہفتے پیٹ سے چار بوتل پانی نکلواتے تھے
اب ان کے گردے واش ہوتے ہوتے ختم ہوچکے تھے۔

ایک وقت میں آدھا سلائس ان کی غذا تھی۔ سانس لینے میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔
نقاہت اتنی کہ بغیر سہارے کے حاجت کیلئے نہ جاسکتے تھے۔

ایک دن چوہدری صاحب ان کے ہاں تشریف لے گئے
اور انہیں سہارے کے بغیر چلتے دیکھا تو بہت حیران ہوئے انہوں نے دور سے ہاتھ ہلا کر چوہدری صاحب کا استقبال کیا‘

چہل قدمی کرتے کرتے حاجی صاحب نے دس چکر لان میں لگائے‘
پھر مسکرا کر ان کے سامنے بیٹھ گئے‘
ان کی گردن میں صحت مند لوگوں جیسا تناؤ تھا۔

چوہدری صاحب نے ان سے پوچھا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا؟
کوئی دوا‘ کوئی دعا‘ کوئی پیتھی‘ کوئی تھراپی۔ آخر یہ کمال کس نے دکھایا۔

حاجی صاحب نے
فرمایا میرے ہاتھ میں ایک ایسا نسخہ آیا ہے کہ اگر دنیا کو معلوم ہوجائے تو سارے ڈاکٹر‘ حکیم بیروزگار ہوجائیں۔

سارے ہسپتال بند ہوجائیں اور سارے میڈیکل سٹوروں پر تالے پڑجائیں۔

چوہدری صاحب مزید حیران ہوئے کہ آخر ایسا کونسا نسخہ ہے جو ان کے ہاتھ آیا ہے۔
حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے ملازم کی والدہ فوت ہوگئی‘
میرے بیٹوں نے عارضی طورپر ایک چھ سات سالہ بچہ میری خدمت کیلئے دیا‘
میں نے ایک دن بچے سے پوچھا کہ آخر کس مجبوری کی بنا پر تمہیں اس عمر میں میری خدمت کرنا پڑی‘بچہ پہلے تو خاموش رہا پھر سسکیاں بھر کر بولا کہ ایک دن میں گھر سے باہر تھا‘میری امی‘ ابو‘ بھائی‘ بہن سب سیلاب میں بہہ گئے
میرے مال مویشی ڈھور ڈنگر‘ زمین پر رشتہ داروں نے قبضہ کرلیا۔
اب دنیا میں میرا کوئی نہیں۔

اب دو وقت کی روٹی اور کپڑوں کے عوض آپ کی خدمت پر مامور ہوں۔
یہ سنتے ہی حاجی صاحب کا دل پسیج گیا اور پوچھا بیٹا کیا تم پڑھوگے بچے نے ہاں میں سرہلا دیا۔

حاجی صاحب نے منیجر سے کہا کہ اس بچے کو شہر کے سب سے اچھے
سکول میں داخل کراؤ۔

بچے کا داخل ہونا تھا کہ اس کی دعاؤں نے اثر کیا‘
قدرت مہربان ہوگئی‘
میں نے تین سالوں کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا‘
سارے ڈاکٹر اور گھروالے حیران تھے۔

اگلے روز اس یتیم بچے کو ہاسٹل میں داخلہ
دلوایا اور بغیر سہارے کے ٹوائلٹ تک چل کرگیا‘ میں نے منیجر سے کہا کہ شہر سے پانچ ایسے اور بچے ڈھونڈ کرلاؤ جن کا دنیا میں کوئی نہ ہو۔

پھر ایسے بچے لائے گئے
انہیں بھی اسی سکول میں داخل کرادیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور آج میں بغیر سہارے کے چل رہا ہوں۔

سیر ہوکر کھاپی رہا ہوں اور قہقہے لگارہا ہوں۔ حاجی صاحب سینہ پھلا کر گلاب کی کیاریوں کی طرف چل دئیے

اور فرمایا میں اب نہیں گروں گا جب تک کہ یہ بچے اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوجاتے۔
حاجی صاحب گلاب کی کیاریوں کے قریب رک
گئے اور ایک عجیب فقرہ زبان پر لائے :-

’’قدرت‘ یتیموں کو سائے دینے والےدرختوں کے سائے لمبے کردیا کرتی ہے...

(نقل وچسپاں )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
65 views12:19
باز کردن / نظر دهید
2021-09-04 12:20:28 میں ایک کلرک ہوں۔ میری تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے۔ میں ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے محلے کے قصاب سے چھ سو روپے کا آدھا کلو چھوٹا گوشت لے کر اپنے کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھیج دیتا ہوں۔ یہ گوشت ہماری طرف سے صدقہ ہو جاتا ہے۔

میرا ایک چھوٹا سا کریانہ سٹور ہے۔ میں روزانہ پچاس روپے کاروبار سے نکال کر گولک میں ڈال دیتا ہوں۔ میں ہر ماہ پندرہ سو روپے اپنے محلے کی ڈسپینسری میں دے آتا ہوں۔ وہاں معائنہ فیس پچاس روپے کے عوض مریضوں کو ادویات دی جاتی ہے۔ میری طرف سے ایک مہینے میں تیس مریضوں کا علاج ہو جاتا ہے۔

میں اپنے کاروبار سے روزانہ سو روپے الگ کر کے اپنی بیوی کے پاس جمع کرواتا ہوں۔ مہینے کے بعد ہم تین ہزار روپے کا راشن بیگ ایک غریب گھرانے کو بھجوا دیتے ہیں۔

میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوں۔ سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ ہوں۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہ میں سے پانچ ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ ہم ہر سال ماہ رمضان میں اپنے شہر کے یتیم خانے میں قیام پذیر بچوں کو عید کے نئے کپڑے لے کر دیتے ہیں۔ ہمارے بجٹ سے ساٹھ پینسٹھ بچوں کے لیے تین دن کے دیدہ زیب کپڑوں کا انتظام آسانی سے ہو جاتا ہے۔

میری کپڑے کی دکان ہے۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی آمدنی میں سے دس ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ یہ سال کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتے ہیں۔ میں ہر سال ایک یتیم بچی کی شادی و رخصتی کا بند و بست کرتا ہوں۔

میں ڈاکٹر ہوں۔ میرا معمول ہے کہ میں اپنی آمدنی میں سے کینسنر سوسائیٹی کے ذریعے روزانہ ایک غریب مریض کے لیے کیمو تھراپی کا انجیکشن ڈونیٹ کرتا ہوں۔

ہم دونوں میاں بیوی سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں۔ ہم ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ایک معقول حصہ الگ کرتے ہیں۔ اور ہر ماہ کے پہلے سنڈے کو اپنے محلے کے دینی مدرسے میں پڑھنے والے ہاسٹلائز بچوں کو مدرسے میں جا کر کھانا پیش کرتے ہیں۔

میری پوش علاقے میں ایک بیکری ہے۔ میں نے اپنے علاقے کے دونوں گرلز اینڈ بوائز سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو کہہ رکھا ہے کہ یتیم طلبا و طالبات کی یونیفارم اور جوتے میرے ذمہ ہیں۔ یہ کام کئی سال سے جاری ہے۔ الحمد للہ اس مقصد کے لیے دو سو روپے روزانہ الگ کر دیتا ہوں۔

میرا میڈیکل سٹور ہے۔ میں روزانہ پانچ سو روپے اپنی کمائی سے الگ کرتا ہوں اور اس رقم سے ان لوگوں کی مدد کرتا ہوں جن کے پاس علاج معالجے کے لیے ایک کوڑی نہیں ہوتی۔

میرا ریسٹورینٹ ہے۔ میں روزانہ پچاس لوگوں کو اپنے ریسٹورینٹ سے رات کا معیاری کھانا پارسل صورت میں دیتا ہوں۔ تاکہ وہ غریب لوگ گھر جا کر اپنی فیملی کے ساتھ سیر ہو کر کھائیں۔

میں انجنیئر ہوں۔ میں ایک نجی کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔ میری بیوی بھی ایک بڑے تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ ہم دونوں اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ باقاعدگی سے ایک مخصوص رقم الگ کرتے ہیں۔ ہم معذور افراد کے لیے قائم ایک ادارے کو ہر ماہ ایک وہیل چیئر عطیہ کرتے ہیں جو کسی مستحق معذور کو دے دی جاتی ہے۔

(نقل وچسپاں )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
159 views09:20
باز کردن / نظر دهید
2021-09-03 01:12:20 چھوٹا منہ بڑی بات
ــــــــــــــــــــــــــ

از ـ محمود احمد خاں دریابادی

نیاز فتحپوری نام کے ایک ادیب، صحافی، مصنف اور نقاد ماضی قریب میں گزرے ہیں، بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے، بہت وسیع مطالعہ تھا، اسلامیات پر بھی زبردست نگاہ تھی، علماء سے ہمیشہ متنفر رہے، اپنے زمانے کے کئی نامور علماء سید سلیمان ندوی وغیرہ سے زندگی بھر قلمی جنگ چلتی رہی ، ........... انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اللہ نے دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں بنائی ہر چیز میں کچھ نہ کچھ فائدے ہیں مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی نامی چیز کیوں بنادی یہ کس مرض کی دوا ہے ـ

دراصل مولوی ہے ہی ایسی چیز، یہ بے چارہ اپنوں کے سمجھ میں نہیں آتا، اپنے لوگ اسے دھرتی کا بوجھ، خیرات خور، " ناکارہ قل اعوذی " اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں، .......... مگر دشمن خوب جانتا ہے کہ اصل مقابل کون ہے، ابھی چند دنوں قبل بہت دنوں کے بعد اپنے " بھٹ " سے باہر آنے والے پروین توگاڑیا نے اپنی سیاہ نامبارک زبان سے " غوغا سرائی " کرتے ہوئے کہا کہ سب مولویوں کو جیل بھیج دینا چاہیئے، دارالعلوم دیوبند اور تبلیغی جماعت، جمیعۃ علماء پر پابندی لگادینی چاہیئے ............ !

کبھی سوچا ہے کہ توگڑیا نے صرف مولویوں، دیوبند، جمیعۃ اور تبلیغی جماعت کو ہی نشانہ کیوں بنایا ؟ حالانکہ ملک میں بہت سے " سوٹ پوش اور ٹائی بردار " افراد بھی ملی خدمات انجام دے رہے ہیں، بہت سے مسلمانوں کے قائم کردہ عصری علوم کے ادارے، کالج، اسکول وغیرہ بھی ہیں جو یقینا بہتر کام کررہے ہیں، مگر توگڑیا نے اُن سب کا نوٹس نہیں لیا ـ

بات وہی ہے کہ دشمن خوب جانتا ہے اور ہم سے زیادہ تاریخ پر اس کی نظر ہے، وہ جانتا ہے کہ جب بھی کوئی انقلاب آیا ہے اِنھیں بوریہ نشینوں کے ذریعے آیا ہے، آئندہ بھی اگر کوئی مقابل بن سکتا ہے تو یہی خرقہ پوش ہمارے مقابل بن سکتے ہیں ـ

اب ذرا اپنی اندرونی صورت حال پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجئے، ایک طرف اپنے ہی کچھ لوگ ہیں جو مولویوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں، دوسری طرف خود ہم مولویوں کا یہ حال ہے کہ آپسی چپقلش، لالچ، حسد اور اقتدار کی ہوس کی وجہ سے آپس میں ہی بھڑتے رہتے ہیں، کہیں کہیں " مکّا لات " کی نوبت بھی آجاتی ہے، ہمارے ان اختلافات کی وجہ سے پوری ملت تقسیم ہوجاتی ہے، ملک بھر میں ہمارے ادارے تقسیم ہوجاتے ہیں، تنظیمیں، جماعتیں تقسیم ہوجاتی ہیں، ہمارے عمامہ پوش بزرگ اپنے جیسے دوسرے بزرگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، ........... یہی نظارہ برسوں پہلے دیوبند میں نظر آیا تھا، سہارنپور میں بھی دیکھا گیا اور اب تبلیغی جماعت میں نظر آرہا ہے، جمیعۃ علماء بھی اسی کا شکار ہے ـ ............ دوسری طرف دشمن ہے جو مضبوط ہے، متحد ہے اور مستعد بھی،

کیا ایسے میں امت کے اکابرین و اساطین کا فرض نہیں بنتا کہ آپس میں ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ــ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ؟ ؟
( اوپر کا جملہ ہم نے جان بوجھ کر ادھورا چھوڑا ہے ہمارے بڑے اتنے تو سمجھدار ہیں ہی کہ ادھورا جملہ پورا کرسکیں، ہم اگر پورا کرتے تو " چھوٹا منہ بڑی بات " ہوجاتی ـ)

محمود احمد خاں دریابادی
۲ ستمبر ۲۰۲۱ ء بعد العشاء
215 views22:12
باز کردن / نظر دهید