Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 13

2021-07-21 00:32:50
*ملت اسلامیہ کو عیدالاضحٰی کی پُر خلوص مبارکباد*


*عیدالاضحیٰ پر قربانی کرنا صرف سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنا اور جانور کو قربان کرنے سے منسوب نہیں ہے بلکہ قربانی کا اصل معنی تو یہ ہے کہ اللہ کی ذات کی خاطر انسان اپنی سب سے قیمتی چیز کو قربان کرے*
*یہ قربانی ہماری اطاعت اور ہماری آمادگی کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم حکم خدا پر اپنی محبوب شے کو بھی قربان کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے کہ ہم اپنی آرزوؤں، خواہشوں، مقاصد اور ہماری دنیاوی آزادی کی قربانی دیتے ہوئے احکامات الہی پر چلیں گے۔* *یعنی دیانتداری اور نیکی و حق کی راہ پر چلیں گے۔*
*آج کے پُر آشوب دور میں عالم اسلام جو باطل طاقتوں کے نرغے میں ہے سلامتی کی دعا کیساتھ، عالمی وباء سے مکمل چھٹکارہ کیساتھ، امن و امان کیساتھ، غریب مسکین، مہتاج، کمزوروں کی داد رسی کیساتھ ہی عیدالاضحٰی کی سچی خوشیاں میسر ہونگی*
*یہی پیغام عیدالاضحٰی ہے*
176 views21:32
باز کردن / نظر دهید
2021-07-20 09:01:30 *یہ دعا آج پڑہیں اور نقطوں کی جگہ اپنے بچوں کا نام لیں ...*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس دعا کے ساتھ ہم سب کے بچے اللہ کی حفاظت میں ہوں گے ۔

......نقطوں کی جگہ اپنے بچوں کا نام لے کر دعا پڑہیں

اے پروردگار.......کو اس حال میں مجھے عطا کیا جب میں بھت ناتواں تہی ،اسی لیے .......کواپنے پناہ میں رکھنا کیوں کہ میں انکو پناہ دینے میں توانائی نہیں رکہتی ۔
اے پروردگار......کو ہر برائی ،شر اور نقصان سے محفوظ فرما۔

اے خدا ........کو ہر بیماری سے محفوظ فرما ۔

اے مھربان رب میرا امتحان اور آزمائش ........میں قرار نہ دینا ۔

اے پروردگارا .........کو اپنی آشکار اور پنھاں آزمائشوں میں کامیاب فرما۔

اے رب کریم ......کو اپنے صالحین میں سے قرار دے ،اور .....کو دین و عبادت و اخلاق میں بھترین لوگوں میں سے اور زندگی میں سعادتمندوں میں سے مقرر فرما۔

اے پروردگار.........کو حلال کے ذریعے حرام سے روک دینا اور فضل و کرم الہی سے اپنے سوا کسی کے محتاج نہ کرنا ۔

اے رب رحیم جس طرح اپنی کتاب پاک کی قیامت تک حفاظت کرنی ہے ........کو شیطان رجیم کے شر محفوظ رکھنا ۔

اے رب مھربان اپنے پاکیزہ ترین بندوں کے ساتھ دوستی اور قرب اور اپنی ذات پر توکل ........کو نصیب فرما ۔

اے پروردگار وہ تمام بیماریاں جو روح و جسم کو نقصان پہنچاتی ہیں ........سے دور فرما ،اور اپنے ارادہ خیر کے ذریعہ مجھے توفیق فرما میں .......کے لیے بھترین امیدیں اور آرزوئیں کروں اور ان دعائوں کو قبول فرما یا حنان و یا منان ۔

اے پروردگار مجھ تک ........کا احسان اور نیکی میری اپنی زندگی میں مجھے نصیب فرما اور انکی دعائوں کے ذریعے مجھے موت کے بعد خوشی اور سکون عطا فرما ۔

اے رب رحمان و رحیم میں اپنے بچوں کو جو میرے جگر کا ٹکڑا ہیں تیرے سپرد کرتی ہوں ،جس وقت وہ میری نظروں سے اوجھل ہیں تیری نگاہ کے سامنے ہیں ،انہیں اس عظمت کے ساتھ محفوظ فرما جو تیرے شان میں ہے ۔

آج وہ دن ہے کہ جس میں والدین کی دعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے ،اے پروردگار وہ جو میری زبان سے نہیں نکلا لیکن تیری حکمت و علم سے پوشیدہ نہیں ہے وہ عطا فرما
برحمتک یا ارحم الراحمین
اولاد کے لئے دل کی گہرائیوں سے نکلی دعا

اے الله میں تیرے صمد نام کے ساتھ ، تیرے عظمت والے نام کیساتھ دعا کرتا ہوں کہ اے رب کریم میری اولاد کے احوال کو درست فرما کر مجھ پر احسان فرما !

اے الله ! انکی عمر میں صحت و عافیت اور اپنی اطاعت و رضا کیساتھ برکت پیدا فرما دے ۔۔۔

اے الله! ا انکے ضعف اور مرض کو قوة اور شفا میں بدل دے !

یا رب !انکے بدن و کان و آنکھ و جان و اعضاء میں عافیت پیدا فرما !

اے اللہ ! اپنی رحمت سے انکی ہر بلا ، گناہ ،گمراہی اور غلطیوں سے حفاظت فرما !
اے الله ! انکو اپنا فرمانبردار بنا !

اے الله ! انکی تربیت کرنے میں،انکی نیکی میں اور انکو مؤَدب بنانے میں میری مدد فرما !

اے الله انکو میرے لئے خیر بنا دے !

اے الله ! میں اپنی اولاد کو تیری ضمانت و امانت میں دیتا ہوں،
اے وہ عظیم ذات کہ جو أمانت کو ضائع نہیں کرتا،
میں ہر آفت و ہر بری بیماری اور رات و دن کے شر اور ہر حاسد کی آنکھ کے شر سے حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔

اے الله ! انکی حفاظت فرمائیے سامنے سے ، پیچھے سے،دائیں سے، بائیں سے اور اوپر سے، اور نیچے سے !

اے الله ! میری اولاد کے دل میں اپنی محبت ڈال دے ۔اور انہیں اپنا اور اپنے پیارے حبیب کے فرمان حکام پر عمل کرنے والابنا لے

اے الله! ان کی آنکھ کو نامحرم کے دیکھنے سے، ان کے دل کو نامحرم کی محبت میں مبتلا ہونے سے بچا لیجیئے !

اے الله! میری اولاد کی محبت اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال دے، ان کیلئے دلوں کو مسخر فرما دے !

اے الله !میری اولاد کو دین و علم و اخلاق اور لوگوں کی محبت میں سے حصہ عطا فرما !

اے خالق کائنات ! ان کی توانائیوں ، صلاحیتوں، اوقات، مال اور رزق میں آپ کے دین کا حصہ ہو، دین کے دشمنوں کا کوئی حصہ نہ ہو۔

اے الله، میری اولاد کو دو جہاں میں کامیابی اور بلند مقام عطا فرما !

اے الله! انکو نیک بخت اور أتقیاء و أغنیاء اور أسخیاء و بردبار و علم والے اور نصیحت کرنیوالوں میں سے بنا دے !

آمین یا رب العالمین یا سمیع الدعوات

آپ اپنی اولاد کیلئے ان مبارک دنوں میں دعا کیجیئے اور اس میسیج کو ہر ماں باپ تک پہنچا دیں یہاں تک کہ وہ اپنی اولاد کیلئے دعا کریں اور آپ اجر کمائیں۔۔۔
آپ روزانہ اپنی اولاد کیلئے دعا کریں سُستی مت کیجیئے اس حال میں کہ آپ پر یہ برکت والے ایام گزر جائیں ، بےشک ہم اور آپ اور ہر ماں باپ حاجتمند ہیں ۔۔۔
235 views06:01
باز کردن / نظر دهید
2021-07-19 05:42:35 *دلیپ کمار* کہتے ہیں...

"اپنے کیرئیر کے عروج پر ایک بار میں جہاز سے سفر کر رہا تھا. میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک بڑی عمر کا بندہ بیٹھا تھا جس نے سادہ سی شرٹ اور پینٹ پہن رکھی تھی اور حلیے سے ہی مڈل کلاس پر اچھا پڑھا لکھا شخص لگ رہا تھا. دوسرے مسافر تو شاید مجھے پہچان رہے تھے پر اس بندے کو تو جیسے میری موجودگی سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا. وہ اخبار پڑھ رہا تھا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا اور جب چائے پیش کی گئی تو خاموشی سے اسکی چسکیاں لینے لگا. اس سے گفتگو کی کوشش میں مَیں نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اس شخص نے بھی ازروئے مہربانی واپسی مسکراہٹ دکھائی اور مجھے ہیلو کہا. ہماری گفتگو شروع ہو گئی اور میں نے موضوع سینما اور فلم کی طرف موڑ دیا اور اس سے پوچھا 'آپ فلمیں دیکھتے ہیں؟ '
اس شخص نے جواب دیا 'اوہ بہت کم. کئی سال پہلے ایک فلم دیکھی تھی. '
میں نے بتایا کہ میں فلم انڈسٹری میں کام کرتا ہوں.
وہ شخص جواباً بولا 'اوہ بہت خوب. آپ کیا کرتے ہو؟ '
'میں اداکار ہوں ' میں نے جواب دیا.
اس شخص نے سر ہلایا 'واہ یہ تو زبردست ہے' اور بس گفتگو ختم ہو گئی.
جب ہم لینڈ کر گئے تو میں نے ہاتھ بڑھا کر اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا 'آپ کے ساتھ سفر کرنا اچھا لگا. ویسے میرا نام دلیپ کمار ہے '
اس شخص نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مسکرایا' آپکا شکریہ. آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی. میں جے آر ڈی ٹاٹا ہوں..... ٹاٹا گروپ آف کمپنیز کا چیرمین..... "
دلیپ کمار کہتے ہیں اس دن میں نے جانا

"No matter how big you think you are, there is always someone bigger."
"Be humble, it costs nothing."
( یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ آپ خود کو کتنا بڑا سمجھتے ہیں، کوئی نہ کوئی ہمیشہ آپ سے بڑا ہی ہوگا۔لہٰذا عاجز رہیں جس میں کوئی لاگت نہیں آتی.)

"دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے."
275 views02:42
باز کردن / نظر دهید
2021-07-17 23:10:42 #عمر_ثانی
#عمر_بن_عبدالعزيز

آج عید تھی ، دمشق کے سب سے غریب آدمی کے گھر عید ، جسے خلیفہ کہتے تھے ۔۔۔

ابوبکر قدوسی

#فاطمہ_بنت_عبدالملک کے دادا خلیفہ ہوے، پھر ابّا عبد الملک تو کمال کے ہی خلیفہ تھے ۔ پھر فاطمہ کے بھائی ایک کے بعد ایک چار خلفاء ہو گئے ۔
شادی مدینے کے گورنر سے ہوئی ۔۔ گورنر ایسا بانکا سجیلا کہ ہر عورت ایسے خاوند کی خواہش کرے ۔۔۔جس راہ سے گزرتے جیسے راہ روشن ہو جاتی، فضاء معطر ہو جاتی ۔۔۔۔
فاطمہ کی خوش قسمتی کہ اب کی بار خود اپنا خاوند خلیفہ ہو گیا ۔۔۔۔۔
آج عید تھی ۔۔۔خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔لاکھوں لاکھ مربع میل کا حاکم ۔۔۔
لیکن خلیفہ کیا ہوے ۔۔سب عیش و عشرت رخصت ہوئے ۔۔۔فاطمہ بھی کچھ ایسی وفاء شعار کہ جب گھر میں پوری کی پوری مملکت داخل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ غربت بھی، تو اف تک نہ کی ۔۔۔ خاوند نے اُدھر عہدہ سنبھالا اِدھر تن پر جیسے ٹاٹ پہنا ۔۔۔ ریاست کے غم اور عوام کے پیسے کی اتنی فکر ، دیانت امانت کی ایسی چنتا کہ سب عیش رخصت ہوئے ۔۔۔
آج عید تھی ۔۔۔خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔۔
چند روز پہلے فاطمہ نے خاوند سے کہا کہ عید پر اب کے بچوں کو کپڑے لے دیجئے ۔۔۔ خاوند کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ پیسے کہاں سے لاؤں ۔۔۔۔
فاطمہ نے منہ ادھر کیا اور کمرے سے نکل گئیں کہ آنکھیں برسات ہو رہی تھیں اور من نہ چاہا کہ بہترین انسان بیوی کی آنکھوں میں اترتی رم جھم بارش کو دیکھ لے اور بے چین ہو جائے ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں واپس آئیں اور امید کی جوت جگائی کہ
آج عید تھی ۔۔۔۔خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔۔لاکھوں مربع میل کا حاکم ۔۔۔
" سرتاج ، میرے حضور ! آپ یوں کیجئے کہ بیت المال کے نگران سے کہیے کہ اس بار تنخواہ پیشگی دے دے کہ بچوں کے کپڑے بن جائیں ۔۔ مہینہ بھر سوت کات لوں گی ، جو ملے گا قرض اتر جائے گا "
خاوند کا بجھا چہرہ کچھ روشن ہوا ۔۔آخر باپ بھی تو تھے بھلے جیسے بھی محتسب ہوں ۔۔۔۔ دل تو دل ہوتا ہے ۔۔۔ ابھی میں نے یہ لکھنے سے پہلے اپنی چھوٹی بیٹی کو ڈانٹ دیا اس کی آنکھیں بہہ نکلیں ۔۔۔۔ میں دیر تک بے چین رہا جب تک وہ میری منتوں ترلوں کے بعد مسکرا نہ دی سکون نہ ملا ۔۔۔۔ لیکن یہاں تو ۔۔۔۔۔
آج عید تھی ۔۔۔ خلیفہ کے گھر عید ۔۔۔ عیدِ غریباں ۔۔۔
خلیفہ وقت بیت المال گئے ۔۔۔۔ بیت المال کے نگران کے سامنے دست سوال دراز کیا ۔۔۔ وہ بھی خلیفہ کا اپنا ہی تو مقرر کردہ تھا ۔۔۔۔۔ سوال سن کے بے تأثر رسان سے لہجے میں بولا :
" اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ اگلی تنخواہ کے وقت تک زندہ رہیں گے ۔۔۔۔امت کا پیسہ ہے ، میں کیونکر اس میں اختیار سے تجاوز کروں "
وہ خاموشی سے واپس ہو لیے ۔۔۔۔۔۔عید آ گئی ۔۔۔
آج عید ہے ۔۔ دمشق کے سب سے غریب آدمی کے گھر عید ، غریب آدمی کہ جسے خامس خلیفہ بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔
#عمر_بن_عبدالعزیز ہیں...
گھر واپس لوٹ کر آتے ہیں۔
"فاطمہ! بچوں کو کہہ دو میں انہیں عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سکتا۔۔۔"
عید کی نماز ہوئی ، سب ملنے والے ملنے آئے ۔۔۔ #عمر عبدالعزیز کے بچے بھی انہیں پرانے کپڑوں میں بیٹھے تھے۔۔۔#عمر_بن_عبدالعزیز نے اپنے بچوں سے فرمایا
"بچو ! آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہو گا کہ عید کے کپڑے بھی نہ دلوا سکا۔۔۔۔"
#عمر کے ایک بیٹے کا نام عبدالملک تھا جو ان کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا اسی نے بڑھ کے جواب دیا :
"نہیں ابا! آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے۔۔۔ہمارے باپ نے خیانت نہیں کی۔۔۔۔"
گھر میں تشریف لائے تو بچیاں منہ پر کپڑا رکھ کر بات کر رہی تھیں۔۔۔۔۔کچھ حیران سے ہوے پوچھا :
" کیا ماجرا ہے ، منہ پر کپڑا رکھ کر کیوں بات کر رہی ہو "
بیٹیوں نے جواب دیا :
" آج ہم نے کچے پیاز سے روٹی کھائی ہے ہم نہیں چاہتیں ہمارے منہ سے آنے والی پیاز کی بدبو سے آپ کو پریشانی ہو۔۔۔ "
#عمر_بن_عبدالعزیز کی آنکھوں میں آنسو تھے :
"میری بچیو! کوئی بات اپنی اولاد کو دکھ نہیں دینا چاہتا۔۔۔میں چاہوں تو تمہیں شہنشاہی زندگی دے دوں لیکن میں تمہاری خاطر جہنم کی آگ نہیں خرید سکتا۔۔۔"

ان کا جب انتقال ہوا انہیں قبر میں اتارا گیا۔۔ رجاء قبر میں اترے ، کفن کی گرہ کھول کر دیکھی ۔ رجاء کہتے ہیں :
"میں نے دیکھا۔۔۔۔ #عمر_بن_عبدالعزیز کا چہرہ قبلہ رخ تھا اور چودہویں کے چاند کی طرح روشن تھا یوں کہ جیسے چودہویں کا چاند قبر میں اتر آیا ہو "
رحمہ الله ۔۔۔۔رحمہ الله ۔۔۔۔رحمہ الله

انتخاب
#طلحہ_عارفی
128 views20:10
باز کردن / نظر دهید
2021-07-16 04:18:00 ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﭼﻮﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﻠﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮈﺭﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭨﻮﮐﺮﮮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ..
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﮬﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﭨﺎﺳﮏ ﮬﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ..
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﺯﮦ ﭘﮑﮍﺍ ' ﺍﺱ ﮐﻮ ﭨﻮﮐﺮﮮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﻭﮌ ﭘﮍﮮ .. ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﭨﻮﮐﺮﮮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﭨﻮﮐﺮﺍ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮬﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻟﻮ ﺟﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﺎﮒ ﻧﮑﻼ .. ﺑﺲ ﺩﺱ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭨﻮﮐﺮﮮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﺎﺭ ﭘﮑﮍﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ .. ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﺩﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭼﻮﺯﮮ ﮐﻮ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ..
ﭼﻮﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﭨﻮﮐﺮﮮ ﺗﻠﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﮬﻤﯿﮟ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﺑﮍﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ..
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ..
ﻣﺮﻏﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﭨﻮﮐﺮﮮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﭨﻮﮐﺮﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﭨﮭﺎ ﺩﻭ ﮐﮧ ﭼﻮﺯﮮ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﺳﮑﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮧ ﺁ ﺳﮑﮯ ..
ﻟﻮ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﺮﻏﯽ ﺟﺐ ﮈﺭﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﻖ ﺣﻖ ﮐﯽ ﺻﺪﺍ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺯﮮ ﮬُﻮ ﮬُﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﭨﻮﮐﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﮌﺗﮯ ﮬﯿﮟ ..
ﺟﺐ ﺳﺐ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﻤﻊ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭨﻮﮐﺮﺍ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ..
ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻗﻠﺐ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺯﮮ ﻭﺍﻟﯽ ﮬﮯ .. ﺳﺎﺭﮮ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﭼﻮﺯﮮ ﮬﯿﮟ .. ﺟﺪﮬﺮ ﺩﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﻭﮦ ﻧﮧ ﭼﺎﮬﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺎ ﭘﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﮬﯿﮟ .. ﺑﺲ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﺮ ﻟﻮ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﺧﻮﺩ ﮬﯽ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﭼﻞ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﻝ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮬﮯ ..
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺳﺎﺕ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﯿﭩﯿﮕﺮﯾﺰ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺣﺸﺮ ﮐﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﺗﻠﮯ ﮬﻮﻧﮕﮯ .. ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺴﻢ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﮬﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮑﮯ ﺭﮬﺘﮯ ﮬﯿﮟ .. ﮐﻮﺋﯽ ﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺖ ﮬﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﺭﮬﺘﯽ ﮬﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮧ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ..
ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﺣﮑﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ ﮬﯿﮟ .. ﺩﻣﺎﻍ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﺧﺮﺍﺏ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ ﺟﻮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ .. ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺳﮯ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﮬﻢ ﻧﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ .. ﮬﻢ ﺩﻭﺭ ﮬﯿﮟ !!
55 views01:18
باز کردن / نظر دهید
2021-07-14 03:56:13 وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے ؟
گزر جانے والوں کی یادیں !

تحریر : اظہر عزمی

کراچی میں صبح سے بارش ہورہی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی چلی جارہی تھی۔ شام کو اس کے بابا (والد مرحوم ) کا فون آگیا ۔

بابا : ہاں میاں ۔۔۔ ابھی تک آفس میں ہو ؟

وہ : جی بابا !

بابا : بس اب گھر آنے کی کرو ۔ سارا شہر جھل تھل ہورہا ہے ۔ گھٹنوں گھٹنوں پانی جمع ہے ۔

وہ : میں مجھے پتہ ہے ۔

بابا : کیا پتہ ہے ۔ باہر نکل کر سڑکوں کا حال دیکھا ہے۔ ابھی میں بڑی مشکلوں سے گھر پہنچا ہوں ۔ تمھارے علاوہ سب بچے گھر آچکے ہیں ۔

وہ : آپ فکر نہ کریں ۔ میں کسی نہ کسی طرح آجاوں گا ۔

بابا : کیسے آجاو گے ؟ روڈ پر بسوں ٹیکسیوں کا نام و نشان نہیں اور ایک بات تو بتاو ؟ یہ گاڑئ گھر پر سجانے کے لئے لی ہے کیا ؟ اتنے پیسے ہیں کہ رکشہ ٹیکسی میں آسکو ۔

وہ : ہو جائیں گے ۔

بابا : جیب میں ہوں گے تو ہوں گے ۔ بارش کا زمانہ ہے ۔ گھر سے زیادہ پیسے لے کر نکلا کرو ۔ تمھاری یہ بے دھیانی کی عادت جائے گی نہیں ۔

وہ : بابا میں نے کہا ناں ہو جائیں گے ۔ آفس میں کوئی موٹر سائیکل والا کہیں راستے میں اتار دے گا ۔

بابا : کہہ دیا ہے اس سے ۔ کہیں وہ تمھیں چھوڑ ہی نہ آئے۔

وہ : جی جی کہہ دیا ہے ۔

اب بابا کا غصہ ذرا تھمتا تو کہتے : سنو تمھاری ماں نے آلو بھرے پراٹھے بنائے ہیں ۔ تم آجاو گے تو پکوڑے بھی تل لیں گے ۔ بارش رک جائے تو بیوی بچوں کو لے کر آسکو تو آجاتا ۔ گھر پہنچتے ہی فون کرنا کہ گھر پہنچ گئے ۔
____________________________________________

ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ٹیلی فون آپریٹر نے کہا کہ آپ کی وائف کا فون ہے ۔

اہلیہ : ارے آپ ابھی تک آفس میں ہیں ؟

وہ : بس نکلنے کی کررہا ہوں ۔ بابا کا فون بھی آیا تھا ۔ امی نے آلو بھرے پراٹھے بنائے ہیں اور پکوڑے بھی تل رہی ہیں ۔

ااہلیہ : اچھا تو کیا سیدھے وہیں جائیں گے ؟ اور میں نے جو آلو کا رسا اور پوریاں بنا کر رکھی ہیں ۔ پہلے بتانا تھا ۔

وہ : پہلے کیا بتاتا ۔ ابھی بتایا ہے بابا نے ۔

اہلیہ : بابا کا فون دو مرتبہ یہاں بھی آچکا ہے ۔ آپ کا پوچھ رہے تھے ۔ پانچ مرتبہ افس کال کر چکی ہوں۔ اب کہیں جا کر نمبر ملا ہے ۔ آپ کو تو خیال ہی نہیں آتا ۔ گھر میں بیوی بچے اکیلے ہوں گے۔

وہ : ارے بس ۔۔۔ کیا بتاوں کال کرنے کی سوچ رہا تھا ۔

ااہلیہ : اچھا سنیں ۔ پھر میں بچوں کو بھی تیار کرا دیتی ہوں ۔ اپنی گاڑی پر ہی چلیں گے ؟

وہ : ہاں بھائی بارش میں کون سی سواری ملے گی ۔

اہلیہ : تو یہ گاڑی گھر میں کھڑی کرنے کے لئے لی ہے کیا ؟ عجیب آدمی ہیں آپ بھی ۔ گھر میں گاڑی ہے اور صاحب بسوں میں آ جا رہے ہیں ۔ میں تو کہتی ہوں بیچ ہی دیں ۔

وہ : بابا بھی یہی کہہ رہے تھے ۔

اہلیہ : اچھا بس فون رکھیں اور آنے کی کریں ۔ سنیں ! واپسی پر تھوڑی دیر کے لئے میں اپنی امی کے ہاں بھی ہو لوں گی ۔
____________________________________________

موسلادھار بارش آج بھی ہورہی ہے۔ سڑکوں پر پانی بھی بہت جمع ہوگا ۔ وہ آفس میں ہے اور موبائل فون اس کے ہاتھ میں ہے ۔ ایک اشارے میں کال مل سکتی ہے لیکن وہ جانتا ہے اب یہ کالز نہیں آئیں گی ۔ زمانہ آگے چلا گیا ہے ۔ اس کے چاھنے والے یہ لوگ ایسی جگہ جا سوئے ہیں جہاں ٹیکنالوجی تمام تر ترقی کے باوجود نہیں پہنچ سکتی ۔

ڈانٹ بھری محبت کے ساتھ ، ہلکی سی ناراضگی میں رچی محبت کے ساتھ ۔

وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے ؟
68 views00:56
باز کردن / نظر دهید
2021-07-14 01:04:22 سرخ چوڑیاں
.
مکان کے اُوپر والی سٹوری بنوا رها هوں _مزدوری کا تمام کام ٹهیکے پر دیا _ ٹهیکیدار صاحب آگے ٹهیکہ دے کر چھ سو روپیہ فی هزار چهت پر اینٹیں چڑهوا رها تها _
مزدور آیا
فی پهیرا بیس اینٹیں اٹهاتا _ سیڑهی کے اُنیس سٹیپ چڑهتا اور اِس طرح اُس نے دو گهنٹے میں ایک هزار اینٹ چهت پر پہنچا دی _ تب تک بارش شروع هو گئ تو سلپ هونے کے خطرے سے مزدور نے کام روک دیا

ٹهیکیدار سے چھ سو روپیہ لے کر جانے لگا تو میں نے کہا کہ کهانا کها کر جانا _ وه بولا کے سر جی , ساتھ هی چوک میں منگل بازار لگا هوا , گهر کے لیے سودا لے آؤں تو آ کر روٹی کهاتا هوں

واپس آیا تو اُس کے هاتھ میں بهرا هوا ایک شاپر تها _ میں نے پوچها کہ کیا میں دیکھ سکتا هوں کے تم نے کیا شاپنگ کی , تو تهوڑا هچکچا کر بولا کہ جی ضرور دیکھ لیں _ !
میں بہت پیار کے ساتھ شاپر میں سے ایک ایک آئٹم نکال کر دیکهنے لگ گیا ___ شاپر میں کیا تها _ ؟
پاؤ والا گهی کا پیکٹ , اتنی هی چینی _ چهوٹا پیک چائے کی پتی _ آدها کلو مٹر , چار پانچ آلو , تین عدد پیاز , چهوٹا پیکٹ نمک , تهوڑی سی سرخ مرچیں , ایک ٹکیا دیسی صابن , سگریٹ کی ڈبی _ پلاسٹک کا ایک چهوٹا سا گهوڑا , زیرو سائز کی چھ عدد سرخ چوڑیاں , دو گولیاں پینا ڈول اور ایک پیکٹ نسوار _
پوچها کہ گهر میں هانڈی روٹی کرنے کیلئے جلاؤ گے کیا _ ؟ تو بولا کہ جاتے هوئے پانچ کلو لکڑی اور دو کلو آٹا لے کر جاؤں گا _ همسائے میں هی لکڑی کا ٹال اور آٹا چکی هے _
پهر پوچها کہ اب بارش میں گهر کیسے جاؤ گے اور تمہارا گهر یہاں سے کتنا دور هے _ تو بولا کہ آٹھ کلو میٹر دور گهر هے میرا _ پیدل جاؤنگا اور یا کسی بائک والے سے لفٹ لے لوں گا

آخری سوال کیا کہ پلاسٹک کا گهوڑا اور چوڑیاں کتنے کی ملیں اور اِنکا کیا کرو گے _ ؟ تو بولا کہ دونوں چیزیں پانچ پانچ روپے کی ملیں _ گهوڑا میرے ڈیڑھ سالہ شہزادے کے لئے اور چوڑیاں میری ایک ماه کی شہزادی کیلئے _ شہزادی کو سرخ چوڑیاں بہت سجیں گی _
شاپر میں اُس محنت کش کی پوری دنیا تهی..
68 views22:04
باز کردن / نظر دهید
2021-07-13 01:20:59 *╭┄┅─════════╮*
* ​اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎​
"بیتے زمانے کی پیاری باتیں"

️ گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکئے سے خط پڑھواتے تھے
ڈاکیا تو گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا

خط لکھ بھی دیتا تھا، پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا.

امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہو کر آ جاتے تھے.

یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ نہیں ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا کرتے تھے.

موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھر میں حقیقی قہقہے لگاتے تھے.

ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی.
میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔ حلوہ‘ زردہ چاول اور کھیر.

آئس کریم دوکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی جو میوزک نہیں بجاتی تھیں.

گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے، جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیض کا کونا منہ میں دبائے پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا.

نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا.
ہر دوسرے دن کسی نہ کسی گلی کے کونے سے آواز آ جاتی۔
" بچّو شیرنی باٹی جارہی ہے۔ لے جاؤ" اور آن کی آن میں بچوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا اور کئی آوازیں سنائی دیتیں"میرے بھائی کا حصہ بھی دے دیو"

دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں۔ پہلے تو لوگ "بہانے" سے دودھ لینے جاتے تھے گفتگو ہی گفتگو تھی، باتیں ہی باتیں تھیں، وقت ہی وقت تھا.

گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں، محلے کے بابے حقے پی رہے ہیں اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان ہو رہے ہیں.

جن کے گھر وں میں ٹی وی آ چکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے.
مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا.

"لیکن پھر اچانک سب کچھ بدل گیا ہم قدیم سے جدید ہو گئے"
اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا
کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا

دستر خوان شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو
منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کر لی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں اس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے جس میں ڈپریشن، سردرد، بلڈ پریشر، نیند اور وٹامنز کی گولیاں ہر وقت موجود ہوں!!

"یہ ہمارے والدین کا زمانہ تھا پرسکون ڈپریشن سے پاک"
"آج کل تو دس سال کے بچے کو بھی ٹینشن ہے"
کاش بچپن لوٹ آتا


ارشاداحمد کرتپوری
156 views22:20
باز کردن / نظر دهید
2021-07-11 23:45:21 نہ جانے کب سے بیٹھی هوں !
جلا کر آگ چولہے میں !!
بڑے سے دیگچے میں پھر !
بہت سا پانی ڈالا هے !!
کبھی چمچ چلاتی هوں !
کبھی ڈھکن هٹاتی هوں !!
مگر پتھر نہیں گلتے !!!
میرے سب بچے بھوکے هیں !
مجھے بھی بھوک کھاتی هے !!
نه سالن هے نه روٹی هے !
فقط پتھر هی باقی هیں !!
پکانے کا سلیقه هے !
بہت آساں طریقه هے !!
مگر پتھر نہیں گلتے !!!
سنا هے دور وہ بھی تھا !
خلیفہ خود نکلتا تھا !!
کوئی بھوکا، کوئی پیاسا !
اگر اس رات هوتا تھا !!
بھرا گندم سے اک تھیلا !
کمر پہ لاد لاتا تھا !! یہاں کوئی نہیں آیا !
نہ جانے کب سے بیٹھی هوں !!
مجھے جو بھی میسر هے !
میں بچوں کو کھلا تو دوں !!
مگر پتھر نہیں گلتے __!!!

#عابی_مکھنوی
208 views20:45
باز کردن / نظر دهید
2021-07-08 10:55:01 فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں، بے سہارا نہیں
خود اُنھی کو پُکاریں گے ہم دُور سے ، راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
...
پروفيسر اقبالؔ عظیم کا یومِ ولادت
08؍جولائی 1913

نام اقبال عظیم اور اقبالؔ تخلص تھا۔ 08؍جولائی 1913ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور تھا۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کا امتحان 1940ء میں پاس کیا۔ ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات اعلی معیار سے پاس کیے۔ ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ بعد ازاں مشرقی پاکستان چلے گئے۔ وہاں 1950ء سے 1970ء تک مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ملازمت کے آخری پانچ برسوں میں صوبائی سکریٹریٹ نے ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ اپریل 1970ء میں بینائی زائل ہونے کے باعث ڈھاکے سے کراچی اپنے اعزہ کے پاس آگئے۔ اقبالؔ عظیم نے شعروسخن میں صفیؔ لکھنوی اور وحشتؔ کلکتوی سے اصلاح لی۔ یہ وقارؔ عظیم کے چھوٹے بھائی تھے،
22؍ستمبر 2000ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’مشرقی بنگال میں اردو‘‘، ’’قاب قوسین‘‘(نعتیہ کلام)، ’’مضراب‘‘، ’’لب کشا‘‘، مضراب ورباب‘‘، ’’چراغ آخر شب‘‘(غزلوں کا مجموعہ)۔ ناطق لکھنوی کے کلام کا مجموعہ’’دیوان ناطق‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ سابق مشرقی پاکستان کے اردو شعرا میں ان کا بہت بلند مقام ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:47
......
اقبالؔ عظیم صاحب کے یوم ولادت پر منتخب اشعار

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں، بے سہارا نہیں
خود اُنھی کو پُکاریں گے ہم دُور سے ، راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
---
جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر
سر اتنا مت جھکاؤ کہ دستار گر پڑے
---
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
---
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
---
بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں
اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں
---
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
---
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
---
یوں سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
اس نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں
---
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
---
اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے
اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خرید لیں
---
زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں
---
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
---
جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا
فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا
---
یہ نگاہ شرم جھکی جھکی یہ جبینِ ناز دھواں دھواں
مرے بس کی اب نہیں داستاں مرا کانپتا ہے رواں رواں
---
اس جشنِ چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
---
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
---
سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ
ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں
---
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
---
بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں
---
اے اہلِ وفا دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
---
پرسشِ حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
---
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
---
صبحِ صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے
---
دن ابھی باقی ہے اقبالؔ ذرا تیز چلو
کچھ نہ سوجھے گا تمہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
---
مدحتِ شاہِ کون و مکاں کے لیے صرف لفظ وبیاں کا سہارا نہ لو
فنِ شعری ہے اقبالؔ اپنی جگہ، نعت کہنےکو خونِ جگر چاہیے
......
30 views07:55
باز کردن / نظر دهید