Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 19

2021-05-01 17:29:23
198 views14:29
باز کردن / نظر دهید
2021-05-01 16:50:14 "ماں- ایک عظیم رشتہ"
.
ایک عورت کی حالت نہایت نازک تھی- اسے ہسپتال میں داخل کروایا گیا- اُس کے دماغ میں رسولی تھی۔ سارے رشتے دار عورت کے پاس ہی موجود تھے۔ اس کا بیٹا بھی وہیں موجود تھا۔۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد عورت نے دم توڑ دیا۔
ماں کی وفات کے بعد بیٹا سارا دن روتا رہا۔۔ حتٰی کہ بیمار ہو گیا۔ ماں کی تدفین کے بعد گھر واپس آیا۔ ماں کے کمرے میں گیا۔ ماں کے سرہانے اسے ایک خط ملا جس میں دوائی کی گولیاں رکھی تھیں
خط میں لکھا تھا:
""یہ گولیاں کھا لو بیٹا۔۔۔۔! تمہیں ہمیشہ رونے کے بعد بخار چڑھ جاتا ہے اور زکام ہو جاتا ہے۔
تمہاری ماں۔۔۔۔!
...
(ماں کو اپنی حالت کی وجہ سے یہ معلوم تھا اس نے نہیں بچنا اور بعد میں بیٹے نے خوب رونا اور بیمار پڑ جانا ہے،،، جاتے جاتے بھی بیٹے کی فکر تھی)
.
حالات بھلے کیسے بھی ہوں ماں ہمیشہ اپنے بچوں کا خیال کرتی ہے، ان کا بھلا چاہتی ہے۔۔۔
اپنی ماں سے محبت کریں، ان کا خیال رکھیں- جن کی ماں نہیں رہی۔ وہ بھی اپنے دوست احباب اور دیگر رشتہ دار ماؤں کا خیال رکھا کریں اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہا کریں۔۔۔۔۔
.
جزاک اللہ خیر
ساحل ۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
200 views13:50
باز کردن / نظر دهید
2021-05-01 00:10:36 *ان کے والد گرامی *قاری محمد یاسین شمسیؒ* سے بھی ایک دو ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے ، وہ بھی دین کے خدمتگار تھے، اور نہایت شریف النفس انسان تھے، سادگی کا پیکر تھے،خوش مزاج منکسر المزاج اور ملنسار شخص تھے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔
آمین یارب العالمین ۔
*
214 views21:10
باز کردن / نظر دهید
2021-05-01 00:10:36 *فصاحت و بلاغت کے آسمان کا ایک چمکدار ستارہ*
*مفتی محمد عامر یاسین ملی صاحب دامت برکاتہم العالیہ*

از قلم : *ابرار احمد*
(گولڈن نگر)

آج بروز جمعہ سترہ رمضان المبارک مطابق 30 اپریل کو مسجد یاسین (گولڈن نگر) میں نماز جمعہ سے قبل مفتی محمد عامر یاسین ملی صاحب کا خطاب سننے کا شرف حاصل ہوا... پہلی مرتبہ آنجناب کی زیارت سے سرفراز ہوا۔مقامی اخبارات میں وقتاً فوقتاً موصوف کی تحریریں اور مضامین زیر مطالعہ آتی رہیں... جب پہلی نظر پڑی تو حیرت و استعجاب ہوا، بندہ سمجھ رہا تھا کہ نام کی طرح لحیم وشحیم شخصیت ہوگی! مگر ماشاء اللہ بالکل نوجوان، پتلے دبلے، خوبرو اور سادگی کا پیکر نظر آئے... ابھی تک مضمون سے استفادہ کیا تھا آج خطاب سننے کا موقع بھی مل گیا. خطاب کیا تھا ایک روانی تھی، یوں لگ رہا تھا علم کا دریا بہہ رہا ہے اور ہم لوگوں کو سیراب کررہا ہے.. انداز بیاں ایسا تھا کہ لوگ پوری توجہ سے سن رہے تھے اور منہمک تھے.. کہیں کہیں تھوڑی شوخ بیانی جسے سن کر لوگوں کے چہرے پر تبسم آجائے.. بیچ بیچ میں برجستہ اشعار جو بیان کو پختگی دے رہے تھے۔
یادداشت کے سہارے مفتی صاحب کے خطاب کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں.. الفاظ ادھر ادھر ہو جائیں تو در گزر فرمائیں۔
کہتے ہیں:
*ہم لوگ برسوں سے نماز پڑھتے ہیں کوئی دس سال سے کوئی بیس سال سے، مگر کبھی ہم نے کسی عالم دین سے اپنی نماز کی اصلاح نہیں کروائی. ہماری نماز کا معیار یہ ہے کہ کبھی امام مسجد پانچ دس منٹ لیٹ ہوجائے تو ہم پیچھے دیکھتے ہیں. جبکہ ہمیں آگے مصلے کی طرف دیکھنا چاہئے، یعنی ہماری نماز ایسی ہونی چاہیے کہ ہم بوقت ضرورت امامت کر سکیں...
پھر ایک واقعہ سنایا کہ
* کچھ لوگ سفر میں تھے،عصر کاوقت ہوا تو ان چند لوگوں میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر عصر کی نماز پڑھا دی..... پھر سفر شروع ہوا مغرب کا وقت ہوا تو سب عصر کے امام کی طرف دیکھنے لگے..اب انھوں نے معذرت کر لی...مطلب سمجھ میں آیا؟ عصر کی نماز سری ہوتی ہے جبکہ مغرب کی نماز جہری، قراءت پڑھتے تو سب کو معلوم ہوجاتا کہ عصر کی نماز کیسی ہوئی !!
اس کے بعد زکوۃ کے موضوع پر کہا کہ
*ہم لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں مگر تحقیق نہیں کرتے کون مستحق ہے کون نہیں؟ جو سامنے آئے اسے دے دیتے ہیں، حالانکہ پیشہ ور فقراء میں غیر مسلم بھی آتے ہیں انھیں زکوٰۃ کا پیسہ دینا جائز نہیں...
ایک نکتہ والی بات کہی کہ
* غریب محنت کش سبزی فروش یا پھل فروٹ والوں اور رکشہ والوں سے جو کہ حلال کمائی کر رہے ہیں ان سے ہم جب تک پانچ دس روپے کم نہ کرالیں سودا نہیں لیتے، جبکہ پیشہ ور فقراء کو دس بیس روپے ایسے ہی دے دیتے ہیں۔
مزید کہا کہ
* آج زکات کی ادائیگی کے وقت تحقیق نہ کرنے کے نتیجے میں فقیری بڑھ رہی ہے، جو کہ کم ہونی چاہئے تھی۔
رشتے داروں میں زکوٰۃ کسے دینا جائز ہے اور کسے دینا جائز نہیں؟ اس بات کو محض ایک جملے میں سمجھادیا کہ
*ہم جن کے ذریعے دنیا میں آئے اور ہمارے ذریعے جو رشتہ دار دنیا میں آئے انھیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں..
ہم جن کے ذریعے آئے مطلب ماں باپ، دادا دادی نانا نانی...
اور ہمارے ذریعے جو دنیا میں آئے مطلب بیٹا بیٹی پوتا پوتی نواسہ نواسی.....
پھر ظریفانہ انداز میں کہا کہ
اور ہاں!میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے ورنہ گھر کی زکوٰۃ ہمیشہ گھر میں ہی رہے گی.. بیوی شوہر کو دیدے گی اور آئندہ سال شوہر بیوی کو دیدے گا۔
الغرض مفتی عامر صاحب نے آدھے گھنٹے کے بیان میں بہت ہی مفید باتیں کہیں، خصوصا نماز تراویح اور اعتکاف، لیلۃ القدر کی تلاش اور آخری عشرے میں عبادت کے اہتمام پر بھی زور دیا۔ بہترین انداز میں خطاب سن کر وقت کا پتہ ہی نہیں چلا... مضمون پورا ہونے کے باوجود تشنگی باقی رہ گئی.... مصلیان نے بھی نماز کے بعد خطاب کی سراہنا کی اور پسندیدگی کا اظہار کیا......
آنجناب نے دوران تقریر امام مسجد مولانا حافظ محمد یاسین ملی صاحب دامت برکاتہم العالیہ( استاذ معہد ملت )کی عزت افزائی جس کمال اور بہترین انداز سے کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ یہ میرے استاذ محترم ہیں، وہ ایک باکمال مقرر ہی کا وصف ہے۔
معلوم ہوا کہ موصوف مسجد یحی زبیر کے امام و خطیب ہیں اور شہرعزیز کی درجنوں مساجد میں نماز جمعہ سے قبل ان کا خطاب ہوتا ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
دلی خواہش ہے کہ دوبارہ پھر جلد ہی وہ مسجد یاسین میں خطاب کے لئے آئیں اور مصلیان کو اپنے اقوال زریں سے فیضیاب فرمائیں۔
آخر میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ باری تعالیٰ آنجناب کو صحت وعافیت والی طویل عمر دے اور علم وعمل میں مزید اضافہ فرمائے۔آمین !!
208 views21:10
باز کردن / نظر دهید
2021-04-30 20:50:45 ایک اندھا آدمی عمارت کے پاس بیٹھا تھا اور پاس ایک بورڈ رکھا تھا جس پہ لکھا تھا "میں اندھا ہوں برائے مہربانی میری مدد کریں" ساتھ میں اس کی ٹوپی پڑی ہوئی تھی جس میں چند سکے تھے.
ایک آدمی وہاں سے گزر رہا تھا اس نے اپنی جیب سے چند سکے نکالے اور ٹوپی میں ڈال دیے اچانک اس کی نظر بورڈ پر پڑی اس نے بورڈ کو اٹھایا اور اس کی دوسری طرف کچھ الفاظ لکھے اور بورڈ کو واپس رکھ دیا تاکہ لوگ اس کو پڑھیں
آدمی کے جانے کے بعد کچھ ہی دیر میں ٹوپی سکوں سے بھر گئی دوپہر کو وہی آدمی واپس جانے کے لیے وہاں سے گزر رہا تھا کہ اندھے نے اس آدمی کے قدموں کی آہٹ کو پہچان لیا اور اس سے پوچھا کہ تم وہی ہو جس نے صبح میرے بورڈ پر کچھ لکھا تھا.
آدمی نے کہا کہ ہاں میں وہی ہوں
اندھے نے پوچھا کہ تم نے کیا لکھا تھا؟ کہ کچھ ہی دیر میں میری ٹوپی سکوں سے بھر گئی جو سارے دن میں نہ بھرتی
آدمی بولا: میں نے صرف سچ لکھا لیکن جس انداز میں تم نے لکھوایا تھا اس سے تھوڑا مختلف تھا میں نے لکھا "آج کا دن بہت خوبصورت ہے لیکن میں اس قابل نہیں کہ اس کا نظارہ کر سکوں"
آدمی نے اندھے کو مخاطب کر کے کہا: تم کیا کہتے ہو کہ جو پہلے لکھا تھا اور جو میں نے بعد میں لکھا دونوں کا اشارہ ایک ہی طرف نہیں ہے.
اندھے نے کہا یقیناً دونوں تحریریں یہی بتاتی ہیں کہ آدمی اندھا ہے لیکن پہلی تحریر میں سادہ لفظوں میں لکھا تھا کہ میں اندھا ہوں اور دوسری تحریر لوگوں کو بتاتی ہے کہ آپ سب بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ اندھے نہیں ہیں.
*نتیجہ*
ہم کو ہر حال میں اللہ شکر ادا کرنا چاہیے ہمارا ذہن تخلیقی ہونا چاہیے نہ کہ لکیر کے فقیر جیسا، ہمیں ہر حال میں مثبت سوچنا چاہیے
جب زندگی آپ کو 100 وجوہات دے رونے کی، پچھتانے کی تو آپ زندگی کو 1000 وجوہات دیں مسکرانے کی
افسوس کے بغیر اپنے ماضی کو تسلیم کریں، اعتماد کے ساتھ حال کا سامنا کریں اور خوف کے بغیر مستقبل کے لیے تیار رہیں ۔

(نقل وچسپاں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
184 views17:50
باز کردن / نظر دهید
2021-04-30 12:36:58 ایک شاہین کی عمر تقریبا ستّر سال ہوتی ہے۔اس عمر تک پہنچنے کے لیے اسے نہایت تکلیفوں، مشکلات اور کٹھن راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب اس کی عمر چالیس سال کی ہوتی ہے۔ تو سب سے پہلے اس کے پنجے جس کی مدد سے وہ شکار کو دبوچتا ہے وہ کند ہو جاتے ہیں اس کے بعد اس کی مضبوط چونچ ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ اور عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پر جس کی مدد سے وہ اونچی پرواز بھرتا ہے وہ اتنے بھاری ہوجاتے ہیں کہ اس کے سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ ان سب مشکلات کے ہوتے ہوئے شاہین کے پاس صرف دو راستے ہوتے ہیں ۔

پہلا راستہ یہ کہ وہ اپنی موت کو تسلیم کر لے، ہمت ہار جائے، اپنی ہار مان لے، اور مر جائے۔
دوسرا راستہ یہ کہ 150 دن کی یعنی 5 مہینے کی انتھک محنت کے لئے تیار ہو جائے۔

شاہین کبھی ہار نہیں مانتا۔ وہ دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے اور وہ پہاڑوں میں چلا جاتا ہے اور سب سے پہلے اپنی چونچ پتھروں پہ مارتا ہے اور اسی طرح وہ اپنی چونچ کو پتھروں پہ مار مار کر توڑ دیتا ہے۔
پھر نئی چونچ نکلنے کا انتظار کرتا ہے۔ اور جب نئی چونچ نکلتی ہے تو اس کی مدد سے وہ اپنا ایک ایک ناخن اوکھاڑ کر پھینکتا ہے۔ اور پھر اسی طرح نئے ناخن اور نئی چونچ کے ساتھ اپنا ایک ایک بال(پر) اوکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اس طویل عرصے میں اسے 5 پانچھ مہینے لگتے ہیں۔

شاہین جب اپنی نئی چونچ، نئے ناخن اور نئے پر کے ساتھ ہواوں میں اڑان بھرتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو۔ اسی طرح وہ زندگی کی مزید 30 بہاریں دیکھ پاتا ہے۔

شاہین کی اس آپ بیتی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بعض اوقات ہمارے لیے زندگی کو بدلنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو بدلنا،اگرچہ اس کے لئے ہمیں سخت محنت، جدوجہد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یاد رکھیں زندگی کے ماہ و سال بدلنے سے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں بدلتے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔

(نقل وچسپاں)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
211 views09:36
باز کردن / نظر دهید
2021-04-29 19:50:25 .....قدیم عربی حکایت کا اردو ترجمہ..

کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین بے گناہ افراد کو سزائے موت دی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا، رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا، چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا، ان میں سے ایک
■ایک عالم
■ ایک وکیل
■ اور ایک فلسفی
تھا. سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا میرا خدا پر پختہ یقین ہے وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا. اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا.
اس کے بعد وکیل کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے. یہاں بھی انصاف ہوگا. اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا، پھانسی دینے والے اس انصاف سے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی.
اس کے بعد فلسفی کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا، فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا.

حکایت کا نتیجہ..

بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے..

ترجمہ
242 views16:50
باز کردن / نظر دهید
2021-04-28 18:50:10 یہ کتنا احمقانہ سا جملہ ہے نا کہ

"میری زبان ذرا سی کڑوی ہے مگر میرا دل صاف ہے، میں سچی بات منہ پر کرنے والا انسان ہوں اس لیے لوگوں کو میری باتیں اچھی نہیں لگتیں"
یا یہ کہ
"فلاں دل کا برا نہیں ہے، بس اس کی باتیں سخت ہوتی ہیں اور لہجہ کڑوا/تلخ ہوتا ہے"

بھلا جس کا دل صاف ہو، جس کے دل میں نفرت، کینہ اور بغض جیسی چیزیں موجود نہ ہوں اس کی زبان کیسے کڑوی ہوسکتی ہے؟ اس کے اخلاق کیونکر برے ہوسکتے ہیں؟ اس کا لہجہ کیسے تلخ ہوسکتا ہے؟
اور جس کی زبان کڑوی ہو اس کا دل کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ اور ایسے صاف دل کا اس کے اردگرد کے انسانوں کو کیا فائدہ ہے جنہیں اس کی زبان تکلیف دے رہی ہو۔
ذرا سوچیں، اور غور کریں۔
دل میں نرمی اور محبت ہوگی تو خودبخود زبان بھی نرم ہوجائے گی۔ اگر زبان اور اخلاق میں سختی اور تلخی ہے تو اس خوش گمانی سے باہر نکل آئیں کہ دل صاف ہے۔

سیدہ نایاب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
39 views15:50
باز کردن / نظر دهید
2021-04-28 15:07:29 اور یہ کائنات کی اس طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں جو ہمارے 21 گرام کی اصل مالک ہے ‘ جس کے حکم سے ہماری سانسیں چلتی ہیں اور ہمارے قدم اٹھتے ہیں ‘ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا ہمارے بدن میں ایک منٹ میں 87 کروڑ حرکتیں ہوتی ہیں‘ ہمارے ذہن میں ایک دن میں 68 ہزار خیال آتے ہیں‘ ہم ایک دن میں دس ہزار منصوبے بناتے ہیں لیکن اگلے دن یہ سارے خیال‘ یہ سارے منصوبے اور یہ ساری کروٹیں ہمارے ذہن کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہیں‘ ہمارے یہ سارے خیال‘ یہ سارے منصوبے اور یہ ساری حرکتیں بھی انہی 21 گراموں کی مرہون منت ہیں لیکن آپ انسان کا کمال دیکھئے ڈیڑھ سو گرام گندم‘ 8 اونس انگور اور کسی ایک وزیر کی خوشامد اس کے 21 گراموں کو خدا بنا دیتی ہے۔ یہ خدا کے لہجے میں بولنا شروع کر دیتا ہے‘ یہ اپنی ذات کو دنیا کی بقا قرار دے دیتا ہے‘ یہ خود کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے ‘ہم سب کیا ہیں؟

محض 21 گرام‘ محض ایک سانس‘ محض ایک ہچکی‘ محض ایک چھینک‘ محض ایک جھٹکا ‘ محض ایک بریک‘ محض دماغ کا ایک شارٹ سرکٹ اور محض دل کے اندر اٹھتی ہوئی ایک لہر اور بس‘ ہم نے کبھی سوچا 21 گرام کتنے ہوتے ہیں‘21 گرام لوبیے کے 14 دانے ہوتے ہیں‘ ایک چھوٹا ٹماٹر‘ پیاز کی ایک پرت‘ ریت کی چھ چٹکیاں اور پانچ ٹشو پیپر ہوتے ہیں‘ یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہماری اوقات لیکن ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم 21 گرام کے انسان خود کو کھربوں ٹن وزنی کائنات کے خدا سمجھتے ہیں
37 views12:07
باز کردن / نظر دهید
2021-04-28 15:07:29 *وہ انسانی روح کا وزن معلوم کرنا چاہتا تھا* ‘

اس نے نیو یارک کے چند ڈاکٹروں کو ساتھ ملایا اورمختلف طریقے وضع کرنا شروع کر دئیے ‘ یہ لوگ بالآخر ایک طریقے پر متفق ہو گئے۔ ڈاکٹر نزع کے شکار لوگوں کو شیشے کے باکس میں رکھ دیتے تھے‘ مریض کی ناک میں آکسیجن کی چھوٹی سی نلکی لگا دی جاتی تھی اور باکس کو انتہائی حساس ترازو پر رکھ دیا جاتا تھا‘

ڈاکٹر باکس پر نظریں جما کر کھڑے ہو جاتے تھے‘ مریض آخری ہچکی لیتا تھا‘اس کی جان نکلتی تھی اور ترازو کے ہندسوں میں تھوڑی سی کمی آ جاتی تھی‘ ڈاکٹر یہ کمی نوٹ کر لیتے تھے‘ ان لوگوں نے پانچ سال میں بارہ سو تجربات کئے‘ 2004ءکے آخر میں ٹیم نے اعلان کیا”انسانی روح کا وزن 67 گرام ہوتا ہے“ ٹیم نے اپنی تھیوری کے جواز میں 12 سو انتقال شدہ لوگوں کی ہسٹری بیان کی‘ ٹیم کا کہنا تھا ان کے باکس میں رکھا شخص جوں ہی فوت ہوتا تھا اس کا وزن 67 گرام کم ہوجاتا تھا

لہٰذا وہ بارہ سو تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں انسانی روح کا وزن 67 گرام ہوتاہے۔ اسی قسم کے تجربات لاس اینجلس کے ایک ڈاکٹر ابراہام نے بھی کئے‘ اس نے انتہائی حساس ترازو بنایا‘ وہ مریض کو اس تراکا پر لٹاتا‘ مریض کے پھیپھڑوں کی آکسیجن کا وزن کرتا اور اس کے مرنے کا انتظار کرتا‘ ڈاکٹر ابراہام نے بھی سینکڑوں تجربات کے بعد اعلان کیا ”انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے“

ابراہام کا کہنا تھا انسانی روح اس 21 گرام آکسیجن کا نام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں‘ کھدروں‘ درزوں اور لکیروں میں چھپی رہتی ہے‘ موت ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پر وار کرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس 21 گرام آکسیجن کو باہر دھکیل دیتی ہے اس کے بعد انسانی جسم کے سارے سیل مر جاتے ہیں اور یوںانسان فوت ہو جاتا ہے۔

نیویارک کے ڈاکٹروں کا اندازہ درست ہے یا ڈاکٹر ابراہام کی تحقیق ‘ یہ فیصلہ ابھی باقی ہے تاہم یہ طے ہو چکا ہے انسانی روح کا وزن گراموں میں ہوتا ہے‘ ہمارے جسم سے 21 یا 67 گرام زندگی خارج ہوتی ہے اور ہم فوت ہو جاتے ہیں‘میں نے پچھلے دنوں ہالی وڈ کی ایک فلم دیکھی تھی‘ یہ فلم ڈاکٹر ابراہام کی تھیوری پر بنی تھی اور اس میں بھی انسانی روح کو 21 گرام قرار دیا گیا تھا لہٰذا اگر ہم فرض کر لیں ہمارے جسم ميں بھاگنے دوڑنے والی زندگی کا وزن محض 21 گرام ہے

تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ان 21 گراموں میں ہماری خواہشوں کا وزن کتنا ہے‘ اس میں ہماری نفرتیں‘ ہمارے ارادے‘ ہمارے منصوبے‘ ہماری ہیرا پھیریاں‘ ہمارے سمجھوتے‘ ہماری چالاکیاں‘ ہمارے لالچ‘ ہماری سازشیں اور ہماری ابد تک زندہ رہنے کی تمنا کتنے گرام ہے‘ان 21 گراموں میں ہماری ہوس' ہماری لبرل ازم‘ہماری آزاد خیالی اور ہماری بہادری کا کتنا وزن ہے‘ ان 21 گراموں میں ہمارے حوصلے‘ ہماری قوت برداشت‘ ہماری جرآت ‘ ہماری خوشامد‘ ہماری پھرتیوں‘ ہماری عقل اور ہماری فہم کا کتنا حصہ ہے‘ان 21 گراموں میں ہماری سمارٹ نس‘ ہماری الرٹ نس' ہم اپنی اگلی نسل کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں‘ ہم اپنی ساری دولت فورن شفٹ کرنا چاہتے ہیں

‘ہم نے خوشامد کو آرٹ کی شکل دے دی ہے‘ ہم روزانہ لاکھوں لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں‘ ہم ایک منٹ میں دس دس مرتبہ ضمیر کا سودا کرتے ہیں‘ ہم صرف اپنا اقتدار بچانے کیلئے چھ چھ سو جھوٹ بولتے ہیں‘ ہم داڑھی اور نماز کو خوف کی شکل دے رہے ہیں اور ہم ظالم سے نفرت کرنے والے ہر شخص کو مجرم سمجھتے ہیں‘ سوال پیدا ہوتا ہے ہماری ان ساری سوچوں‘ ہمارے ان سارے خیالات اور ہماری ان ساری خواہشوں کا وزن کتنا ہے اور ان21 گراموں میں ہماری گردن کی اکڑ‘ ہمارے لہجے کے تکبر اور ہماری نظر کے غرور کا بوجھ کتنا ہے اور ہم ان21 گراموں کی مدد سے قدرت کا کتنی دیر تک مقابلہ کر سکتے ہیں‘ ہم ان 21 گراموں کے ذریعے قدرت کے فیصلوں سے کتنی دیر بچ سکتے ہیں‘

یہ 21 گرام ہمیں کتنی دیر تک وقت کی آنچ سے بچا سکتے ہیں‘ یہ21 گرام کب تک ہمارے غرور کی حفاظت کر سکتے ہیں اور یہ 21 گرام ہمارے منصوبوں اور ہماری خواہشوں کی کتنی دیرنگہبانی کر سکتے ہیں۔

میں نے کسی جگہ پڑھا تھا تبت کے لوگ 21 گراموں کی اس زندگی کو موم سمجھتے ہیں لہٰذا یہ لوگ صبح کے وقت موم کے دس بیس مجسمے بناتے ہیں اور یہ مجسمے اپنی دہلیز پر رکھ دیتے ہیں‘ ان میں سے ہر مجسمہ ان کی کسی نہ کسی خواہش کی نمائندگی کرتا ہے ¾ دن میں جب سورج کی تپش میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ مجسمے پگھلنے لگتے ہیں حتیٰ کہ شام تک ان کی دہلیز پر موم کے چند آنسوﺅں کے سوا کچھ نہیں بچتا‘ یہ لوگ ان آنسوﺅں کو دیکھتے ہیں اور اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ”کیا یہ تھیں میری ساری خواہشیں“ اور اس کے بعد ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
36 views12:07
باز کردن / نظر دهید