2021-04-15 12:00:40
"یہ تب کی بات ہے جب میں اک خوبصورت نوجوان ہوا کرتا تھا "
یونیورسٹی کا اختتامی دور چل رہا تھا۔۔۔ویسے تو لیکچرز وغیرہ ان دنوں نہیں ہو رہے تھے لیکن پھر بھی ہم سبھی دوست یونیورسٹی کی زندگی کو جی بھر کر جینے کی خاطر یونیورسٹی چلے جاتے تھے۔۔۔۔
سارا دن کلاس میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے۔۔۔
کلاس کی لڑکیاں بھی ان آخری دنوں میں ہم لڑکوں سے تھوڑا زیادہ ہی فری ہو گئی تھیں۔۔شاید وہ بھی ہماری طرح کلاس کے ہر فرد کو مس کرنے والی تھیں۔۔۔۔
میں پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ایک قبیلے کا واحد یونیورسٹی پڑھنے والا لڑکا تھا۔۔۔اس وجہ سے مجھے قبیلے میں ایک خاص عزت کا مقام حاصل تھا۔۔
ہاسٹل لائف کو میں نے بہت اچھی طرح گزارا تھا۔۔
گزارا نہیں بلکہ جیا تھا۔۔۔۔۔رات کو فیلوزکے ساتھ بیٹھ کر طرح طرح کی اوٹپٹانگ حرکتیں کرنا۔۔۔تاش کی بازی لگانا۔۔۔۔ایک دوسرے کا بستر ادھر ادھر پھینکنا۔۔۔رات کو سوتے وقت کسی پر پانی پھینک کر اس کو نیند سے جگا دینا اور پھر ساری رات اسکی گالیاں سننا۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔
بہت پیارا وقت تھا وہ۔۔۔۔کاش وہ وقت کبھی ختم ہی نا ہوتا۔۔۔۔
ایک دن یونیورسٹی کے کوریڈور سے گزرتے وقت میں کسی نسوانی پکار کے باعث چلتے چلتے رک گیا۔۔۔۔مجھے میرا نام لے کر پکارا گیا تھا ۔۔۔
میں نے رک کر،پیچھے مڑ کر دیکھا تو میری کلاس فیلو آبش سکندر میرے روبرو کھڑی تھی۔۔۔
یہ وہی لڑکی تھی جس سے یونیورسٹی کے پہلے ہی دن میری تکرار ہوئی تھی۔۔پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔۔۔چھوٹی سی بات پہ ہی ہم دونوں مرغیوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے۔۔۔۔
وہ ایک امیر گھر کی خوبصورت اور لڑاکو طیارہ لڑکی تھی۔۔۔۔
کلاس کی لڑکیوں کے علاوہ وہ صرف مجھ سے ہی بات کرتی تھی۔۔۔بات نہیں،دراصل لڑتی تھی۔۔۔۔
اینول ڈنر کے موقع پر نجانے کیسے ہم دونوں نے ایک دوسرے سے معافی مانگ کر پچھلے لڑائی جھگڑے ختم کر دیے۔۔۔۔
اس دن کے بعد ہم دونوں کی دوستی کلاس میں مشہور ہو گئی۔۔۔یونیورسٹی کا ہر فرد مجھے آبش کے ساتھ دیکھ کر نجانے کیوں سیخ پا ہوتا رہتا تھا۔۔
شاید اس لیے کہ میں ایک دیہاتی سا سادہ سا لڑکا تھا جس کے ہاتھ میں لنگور کی جگہ انگور آ گئے تھے۔۔۔۔۔
دوستی ہونے کے بعد میں نے جانا کہ وہ بہت نرم دل کی اور محبت کرنے والی لڑکی تھی۔۔۔۔
جب کبھی وہ یونیورسٹی سے غیر حاضر ہوتی تو اپنی غیر حاضری کے بارے میں صرف مجھے ہی بتاتی۔۔۔یہ الگ بات تھی کہ میں اسکو بتائے بغیر اسکی چھٹی کی درخواست لکھ کر جمع کروا دیتا تھا۔۔۔یہ بات میں نے اسے کبھی نہیں بتائی تھی۔۔۔۔
کوریڈور سے گزرتے وقت جب اس نے مجھے پکارا تو میں رک گیا۔۔۔وہ میرے سامنے آئی اور بولی:
" کہاں گھومتے پھر رہے ہو؟ وہ بھی اکیلے اکیلے۔۔۔۔یونیورسٹی کا آخری ہفتہ ہے۔۔۔کم سے کم یہ وقت تو تم میرے ساتھ گزارو ۔۔۔"
اس نے پیار سے دوستانہ شکایت کی تھی۔۔۔
میں نے اس لڑکی کو دیکھا جس سے کبھی میرا ستر کا آکڑا تھا لیکن اب وہ میری سب سے اچھی دوست تھی۔۔۔
" چار سال تو تمہارے ساتھ ہی گزارے ہیں میں نے۔۔۔وہ کیا کم تھے جو اس آخری ہفتے کا رونا رونے بیٹھ گئی ہو۔۔"
میں نے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔۔۔۔
" اوئے بکواس بند کر اپنی۔۔۔میں نے کہا نا کہ تم میرے ساتھ ہی اپنا وقت گزارو گے تو مطلب گزارو گے۔۔۔"
وہ کبھی کبھی مجھے لے کر تھوڑی جذباتی ہو جاتی تھی۔۔۔اس دن بھی وہ جذباتی ہو گئی تھی۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے میری ماں۔۔۔تم چلو میں سر سے مل کر دو منٹ میں آیا۔"
وہ غصے سے مجھے دیکھ کر پاوں پٹخ کر وہاں سے چلی گئی۔ ۔
سر سے مل کر میں اسے ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔۔۔میں جانتا تھا کہ جب وہ مجھ سے غصہ ہوتی تھی تو کہاں جا کر بیٹھتی تھی۔۔۔۔
میں وہیں چلا گیا۔۔۔۔وہ وہیں تھی۔۔۔۔
اکیلی ۔۔۔۔گم سم۔۔۔۔پتھر کی سل پہ بیٹھی،ساتھ لگے شہتوت کے درخت سے سر کو ٹکائے گھاس پہ گرے خشک پتوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
میں اسکے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگی۔۔۔
"ناراض ہو ؟ "
میں نے سوال کیا ۔۔۔
"خاموشی۔۔۔۔"
"میں نے اسکو خاموش دیکھ کر پھر وہی سوال کیا "
اسکا جواب پھر " خاموشی " تھا۔۔۔۔
"کچھ تو بولو۔۔۔۔یوں چپ مت بیٹھو۔۔۔"
میں نے پیار سے اسکو منانے کی خاطر التجا کی۔۔۔۔
" وہ پھر بھی خاموش بیٹھی رہی "
جانے خشک پتوں میں کیا ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔بہت اجڑی اجڑی سی لگ رہی تھی۔۔۔پہلی دفعہ اسکو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ وہ اندر سے بہت دکھی تھی۔۔۔میں نے وجہ پوچھی۔ مگر اسکا جواب وہی خاموشی ہی ملا۔۔۔
میں بیزار ہو کر اٹھ کر جانے لگا تو اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
میں نے مڑ کر اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔۔چار سالوں میں پہلی بار اس نے مجھے چھوا تھا۔۔۔۔پہلی بار اس نے مجھ کو چھوا اور مجھے میری ہی نظروں میں معتبر کر دیا۔۔۔۔
199 views09:00