Get Mystery Box with random crypto!

زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے

لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے ز
لوگوی کانال تلگرام zindagi_gulzar_hai — زِنــدَگی گُلـــــزَار ہَے
آدرس کانال: @zindagi_gulzar_hai
دسته بندی ها: دستهبندی نشده
زبان: فارسی
کشور: ایران
مشترکین: 1.25K
توضیحات از کانال

رومانی ناولز۔ خوبـصورت نظمیں۔ سبق اموز امیج۔ دل کو چھوتی ہوئی غزلیں۔اُردُو کے نَثــرِی ادَب، شـعــری ادَب، ادَب اطـفــال ڪیلئے اِس چَـیـنَـــل ڪو تَشــڪِیــل دِیــا گیا ہے
@Naveed_Akhtar

Ratings & Reviews

3.00

3 reviews

Reviews can be left only by registered users. All reviews are moderated by admins.

5 stars

1

4 stars

0

3 stars

1

2 stars

0

1 stars

1


آخرین پیام ها 21

2021-04-15 12:00:40 "یہ تب کی بات ہے جب میں اک خوبصورت نوجوان ہوا کرتا تھا "
یونیورسٹی کا اختتامی دور چل رہا تھا۔۔۔ویسے تو لیکچرز وغیرہ ان دنوں نہیں ہو رہے تھے لیکن پھر بھی ہم سبھی دوست یونیورسٹی کی زندگی کو جی بھر کر جینے کی خاطر یونیورسٹی چلے جاتے تھے۔۔۔۔
سارا دن کلاس میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے۔۔۔
کلاس کی لڑکیاں بھی ان آخری دنوں میں ہم لڑکوں سے تھوڑا زیادہ ہی فری ہو گئی تھیں۔۔شاید وہ بھی ہماری طرح کلاس کے ہر فرد کو مس کرنے والی تھیں۔۔۔۔
میں پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ایک قبیلے کا واحد یونیورسٹی پڑھنے والا لڑکا تھا۔۔۔اس وجہ سے مجھے قبیلے میں ایک خاص عزت کا مقام حاصل تھا۔۔

ہاسٹل لائف کو میں نے بہت اچھی طرح گزارا تھا۔۔
گزارا نہیں بلکہ جیا تھا۔۔۔۔۔رات کو فیلوزکے ساتھ بیٹھ کر طرح طرح کی اوٹپٹانگ حرکتیں کرنا۔۔۔تاش کی بازی لگانا۔۔۔۔ایک دوسرے کا بستر ادھر ادھر پھینکنا۔۔۔رات کو سوتے وقت کسی پر پانی پھینک کر اس کو نیند سے جگا دینا اور پھر ساری رات اسکی گالیاں سننا۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔
بہت پیارا وقت تھا وہ۔۔۔۔کاش وہ وقت کبھی ختم ہی نا ہوتا۔۔۔۔
ایک دن یونیورسٹی کے کوریڈور سے گزرتے وقت میں کسی نسوانی پکار کے باعث چلتے چلتے رک گیا۔۔۔۔مجھے میرا نام لے کر پکارا گیا تھا ۔۔۔
میں نے رک کر،پیچھے مڑ کر دیکھا تو میری کلاس فیلو آبش سکندر میرے روبرو کھڑی تھی۔۔۔

یہ وہی لڑکی تھی جس سے یونیورسٹی کے پہلے ہی دن میری تکرار ہوئی تھی۔۔پھر یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔۔۔چھوٹی سی بات پہ ہی ہم دونوں مرغیوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے۔۔۔۔
وہ ایک امیر گھر کی خوبصورت اور لڑاکو طیارہ لڑکی تھی۔۔۔۔
کلاس کی لڑکیوں کے علاوہ وہ صرف مجھ سے ہی بات کرتی تھی۔۔۔بات نہیں،دراصل لڑتی تھی۔۔۔۔
اینول ڈنر کے موقع پر نجانے کیسے ہم دونوں نے ایک دوسرے سے معافی مانگ کر پچھلے لڑائی جھگڑے ختم کر دیے۔۔۔۔

اس دن کے بعد ہم دونوں کی دوستی کلاس میں مشہور ہو گئی۔۔۔یونیورسٹی کا ہر فرد مجھے آبش کے ساتھ دیکھ کر نجانے کیوں سیخ پا ہوتا رہتا تھا۔۔
شاید اس لیے کہ میں ایک دیہاتی سا سادہ سا لڑکا تھا جس کے ہاتھ میں لنگور کی جگہ انگور آ گئے تھے۔۔۔۔۔
دوستی ہونے کے بعد میں نے جانا کہ وہ بہت نرم دل کی اور محبت کرنے والی لڑکی تھی۔۔۔۔
جب کبھی وہ یونیورسٹی سے غیر حاضر ہوتی تو اپنی غیر حاضری کے بارے میں صرف مجھے ہی بتاتی۔۔۔یہ الگ بات تھی کہ میں اسکو بتائے بغیر اسکی چھٹی کی درخواست لکھ کر جمع کروا دیتا تھا۔۔۔یہ بات میں نے اسے کبھی نہیں بتائی تھی۔۔۔۔
کوریڈور سے گزرتے وقت جب اس نے مجھے پکارا تو میں رک گیا۔۔۔وہ میرے سامنے آئی اور بولی:
" کہاں گھومتے پھر رہے ہو؟ وہ بھی اکیلے اکیلے۔۔۔۔یونیورسٹی کا آخری ہفتہ ہے۔۔۔کم سے کم یہ وقت تو تم میرے ساتھ گزارو ۔۔۔"
اس نے پیار سے دوستانہ شکایت کی تھی۔۔۔
میں نے اس لڑکی کو دیکھا جس سے کبھی میرا ستر کا آکڑا تھا لیکن اب وہ میری سب سے اچھی دوست تھی۔۔۔
" چار سال تو تمہارے ساتھ ہی گزارے ہیں میں نے۔۔۔وہ کیا کم تھے جو اس آخری ہفتے کا رونا رونے بیٹھ گئی ہو۔۔"
میں نے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔۔۔۔

" اوئے بکواس بند کر اپنی۔۔۔میں نے کہا نا کہ تم میرے ساتھ ہی اپنا وقت گزارو گے تو مطلب گزارو گے۔۔۔"
وہ کبھی کبھی مجھے لے کر تھوڑی جذباتی ہو جاتی تھی۔۔۔اس دن بھی وہ جذباتی ہو گئی تھی۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے میری ماں۔۔۔تم چلو میں سر سے مل کر دو منٹ میں آیا۔"
وہ غصے سے مجھے دیکھ کر پاوں پٹخ کر وہاں سے چلی گئی۔ ۔
سر سے مل کر میں اسے ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔وہ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔۔۔میں جانتا تھا کہ جب وہ مجھ سے غصہ ہوتی تھی تو کہاں جا کر بیٹھتی تھی۔۔۔۔
میں وہیں چلا گیا۔۔۔۔وہ وہیں تھی۔۔۔۔
اکیلی ۔۔۔۔گم سم۔۔۔۔پتھر کی سل پہ بیٹھی،ساتھ لگے شہتوت کے درخت سے سر کو ٹکائے گھاس پہ گرے خشک پتوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
میں اسکے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگی۔۔۔
"ناراض ہو ؟ "
میں نے سوال کیا ۔۔۔
"خاموشی۔۔۔۔"
"میں نے اسکو خاموش دیکھ کر پھر وہی سوال کیا "
اسکا جواب پھر " خاموشی " تھا۔۔۔۔
"کچھ تو بولو۔۔۔۔یوں چپ مت بیٹھو۔۔۔"
میں نے پیار سے اسکو منانے کی خاطر التجا کی۔۔۔۔

" وہ پھر بھی خاموش بیٹھی رہی "
جانے خشک پتوں میں کیا ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔بہت اجڑی اجڑی سی لگ رہی تھی۔۔۔پہلی دفعہ اسکو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ وہ اندر سے بہت دکھی تھی۔۔۔میں نے وجہ پوچھی۔ مگر اسکا جواب وہی خاموشی ہی ملا۔۔۔
میں بیزار ہو کر اٹھ کر جانے لگا تو اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
میں نے مڑ کر اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔۔چار سالوں میں پہلی بار اس نے مجھے چھوا تھا۔۔۔۔پہلی بار اس نے مجھ کو چھوا اور مجھے میری ہی نظروں میں معتبر کر دیا۔۔۔۔
199 views09:00
باز کردن / نظر دهید
2021-04-13 00:13:23 موبائل اچانک کام کرنا بند ہوگیا تو سوچا راستے میں رک کر کوئی سستا سا موبائل خرید لیا جائے جو عارضی بنیادوں پر کام آسکے۔ حفیظ سنٹر پاس ہی تھا، چنانچہ وہاں ایک موبائل شاپ پر چلا گیا اور اس سے سب سے سستا موبائل دکھانے کی فرمائش کی۔



دکاندار نے میرا بجٹ پوچھا تو میں نے اپنی جیب سے پرس نکال کر کیش چیک کرنے کے بعد اسے کہا کہ میرے پاس صرف 3 ہزار روپے ہی ہیں، اس میں جو بھی موبائل آتا ہے، دے دو۔

دکاندار نے مجھے سام سنگ کا خاصا معقول سیٹ دکھا دیا۔ میں نے قیمت پوچھی تو جواب ملا 20 ہزار۔ میں نے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ بھائی صاحب، میں نے عرض کی تھی کہ میرے پاس صرف 3 ہزار روپے ہی ہیں، اسی رینج میں کوئی موبائل دکھاؤ۔

دکاندار نے میری بات سنی اور پیچھے شوکیس سے ایک پہلے سے زیادہ مہنگا موبائل نکال کر دکھا دیا۔ میں نے قیمت پوچھی تو کہنے لگا، 35 ہزار۔

میں نے کہا کہ یہ کیا مذاق ہے؟ میری رینج والے موبائل کیوں نہیں دکھا رہے؟

یہ سن کر وہ چپ چاپ اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں گیا اور وہاں سے سوا لاکھ روپے والا آئی فون 8 پلس لے آیا۔


اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ میں نے کہا کہ کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو یا تم مجھے موبائل بیچنا نہیں چاہتے؟

میری بات سن کر اس نے موبائل کا پیکٹ ایک لفافے میں ڈالا، رسید کاٹی اور مجھے کہا کہ لاؤ تین ہزار اور یہ موبائل لے جاؤ۔ میں حیرانی سے اس کا منہ تکنے لگ گیا۔ مجھے حیران دیکھ کر اس نے کہا:

پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آجکل پروموشن چل رہی ہے، جتنی رقم کوئی خرچ کرے گا، اس رقم سے کئی گنا مہنگا موبائل لے سکے گا۔

یہ سن کر میرا دل کیا کہ میں وہیں لڈیاں ڈالنا شروع کردوں ۔ ۔ ۔ اتنی خوشی زندگی میں کبھی نہیں ملی تھی ۔ ۔ ۔

یہ تو تھا ایک فرضی واقعہ، لیکن یہ سب کچھ حقیقت میں بدلنے جارہا ہے جب چند روز بعد رمضان کا بابرکت مہینہ آئے گا۔

رمضان میں اللّه تعالیٰ ہماری ایک نیکی کے بدلے 7 گنا سے لے کر 700 گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر عطا فرماتا ہے۔ یہ اس کائنات کی سب سے بڑی پروموشن ہے جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی بزنس، کوئی نوکری نہیں کرسکتی۔

رمضان میں سب سے زیادہ نیکی قرآن کی تلاوت کرنے پر ملتی ہے، اور اگر آپ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ تفسیر بھی پڑھ لیں تو اجر کا شمار آپ کیلئے ناممکن ہوگا۔

اس کا اجر اتنا ہوگا کہ اس دنیا میں موجود تمام خزانے بھی مل کر اس کا مقابلہ نہ کرپائیں گے۔ اس کے علاوہ اللہ آپ کی دنیاوی پریشانیاں اور مسائل بھی انشا اللہ دور کردے گا۔



اس پروموشن کا فائدہ اٹھائیں، یہ پیغام آگے پہنچائیں، اگر کسی نے آپ کے کہنے پر قرآن پڑھ لیا تو آپ کو بھی اس کا اجر انشا اللہ مل جائے گا!!!
324 views21:13
باز کردن / نظر دهید
2021-04-12 21:16:53 ملعون ’دفن‘ ہوچکا‘ اب احتساب کیجئے
ایم ودود ساجد

ملعون کتنے دنوں سے شور مچا رہا تھا اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کے دل دکھا رہا تھا۔وہ مجموعی طور پر قرآن کے بارے میں اور خاص طور پر 26 آیات کے بارے میں کیسی کیسی من مانی تشریح کرکے نعوذ باللہ قرآن کو دہشت گردی کی طرف مائل کرنے والی کتاب قرار دے رہا تھا۔یہاں تک کہ اس نے اپنی رٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ قرآن ہے تو الله کی کتاب لیکن یہ تشدد کو بڑھاوا دیتی ہے۔لیکن آج جب سپریم کورٹ میں یہ رٹ سماعت کیلئے بنچ کے سامنے رکھی گئی تو اس ملعون کی ہوا نکل گئی۔۔۔

آج جیسے ہی اس رٹ کا نمبر آیا تو سہ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آر ایف نریمن نے ملعون کے وکیل سے سوال کیا کہ: کیا واقعی آپ اس رٹ کے تعلق سے اب بھی سنجیدہ ہیں؟جسٹس نریمن نے یہ سوال دو بار کیا۔ملعون کے وکیل آر کے رائے زادہ کی زبان سے صرف اتنا نکل سکا کہ ’مائی لارڈ میں اپنی رٹ کو صرف اس بات تک محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو ریگولیٹ کیا جائے۔کیونکہ مدارس میں بچوں کے ذہنوں میں غیر مسلموں کے خلاف تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے اور وہ آیات پڑھائی جاتی ہیں جو تشدد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔۔

ملعون کا وکیل اپنی بات ٹھوس انداز میں کہہ ہی نہ سکا۔وہ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔یہ الله کا کلام تھا جس کے بارے میں وہ اپنی زبان سے ہفوات بکنا چاہتا تھا۔لیکن معلوم نہیں اس کی زبان کو کیا ہوا۔اس کے ارادوں کو کیا ہوا۔وہ اس سے زائد کچھ نہ کہہ سکا۔ہاں وہ ایک ہی بات کو دوہراتا رہا۔جسٹس آر ایف نریمن نے اس سے جو سوال کیا تھا وہ اس کا کوئی مسکت جواب نہیں دے سکا۔سہ رکنی بنچ مطمئن نہ ہوئی اور کوئی جرح کئے بغیر جسٹس نریمن نے کہا: یہ ایک انتہائی نامعقول رٹ ہے۔۔۔۔ اس رٹ کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ملعون کے اوپر 50 ہزار روپیہ کا جرمانہ بھی عاید کردیا۔۔

عام طورپرجب کوئی نامعقول‘ غیر سنجیدہ اور عبث رٹ خارج کی جاتی ہے تو جرمانہ نہیں لگایا جاتا۔۔۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رٹ کنندہ درخواست کرتا ہے کہ وہ اپنی رٹ میں کچھ اصلاح کرکے دوبارہ دائر کرنا چاہتا ہے۔۔لہذا عدالت اس کی اجازت دیدیتی ہے۔یہ بھی ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ رٹ خارج کرتے ہوئے رٹ کنندہ کو متعلقہ ہائی کورٹ یا کسی دوسرے مجاز ٹریبونل کے سامنے رٹ دائر کرنے کی چھوٹ دیدیتی ہے۔۔ لیکن جب کسی رٹ کو خارج کرکے جرمانہ بھی عاید کرتی ہے تو اس کا مفہوم بڑا وسیع ہوتا ہے۔کم سے کم اتنا تو ہوتا ہی ہے کہ عدالت اس رٹ کے دائر کرنے پر بہت سخت ناراض ہے اور وہ رٹ کنندہ کو ایک طرف جہاں اس لغو رٹ کے دائر نے پر سزا دینا چاہتی ہے وہیں دوسری طرف وہ آئندہ کیلئے اس طرح کی رٹ دائر کرنے کے راستے بند بھی کرنا چاہتی ہے۔۔۔

آج کے معاملہ میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ بنچ اس رٹ کے دائر کرنے پر بہت سخت ناراض تھی۔اس لئے اس نے نہ صرف جرمانہ عاید کیا بلکہ آئندہ کے لئے بھی سارے راستے بند کردئے۔جہاں تک اس طرح کی رٹ کے خارج کرنے کے اسباب کا سوال ہے تو 1987میں اس کا جواب کلکتہ ہائی کورٹ دے چکی ہے۔چاند مل چوپڑا اور سیٹھ لال سنگھ نے اسی طرح کی رٹ دائر کی تھی۔عدالت نے اس رٹ کو خارج کرتے ہوئے لکھا تھا: ہمارا موقف یہ ہے کہ عدالتیں قرآن یا قرآن کے کچھ حصوں کو قانون کی کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتیں۔کسی مذہب کو قانون کے کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اسی طرح سے عدالتیں فلسفہ کی تشریحات یا سائنسی اصولوں کا قانونی جائزہ نہیں لے سکتیں اور نہ لے سکیں گی۔

سپریم کورٹ کی یہ آئینی بنچ تھی جس نے آج ملعون کی رٹ خارج کی۔ یہ معاملہ عدالت اور اس ملعون کے بیچ تھا۔سپریم کورٹ سے یہی فیصلہ متوقع تھا۔اس فیصلہ پر انصاف پسند عوام کو اورخاص طور پر مسلمانوں کو خوش ہونا ہی چاہئے۔لیکن اب اس معاملہ کو یہیں ختم سمجھا جانا چاہئے۔ہمارے بعض پر جوش احباب ہر زبان میں اور خاص طورپر اردو اور ہندی زبانوں میں سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھ رہے ہیں جس کی اب ضرورت نہیں ہے۔۔ بعض لوگ سپریم کورٹ کو ہی مشورے دے رہے ہیں کہ اسے یہ بھی کرنا چاہئے تھا اور وہ بھی کرنا چاہئے تھا ۔۔۔ یہ انتہائی نامعقول رویہ ہے۔۔

یہاں تک کہ اس ملعون کو یاد دلارہے ہیں کہ رٹ خارج ہونے کی صورت میں اس نے کیا کیا وعدے کئے تھے۔ان میں سے ایک خود کشی کا بھی تھا۔میرا خیال ہے کہ اب اس طرح کی بات مناسب اور درست نہیں ہے۔اس کے بہت سے قانونی دور رس منفی نتائج اور اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔اب تو الله کا شکر ادا کیا جائے اور اپنے دلوں میں جھانک کر دیکھا جائے کہ کیا واقعی ہم قرآن کی تعلیمات پر بھی عمل کر رہے ہیں؟
287 views18:16
باز کردن / نظر دهید
2021-04-12 15:52:30 تو قدم بڑھا کر تو دیکھ، وہ دوڑ نہ لگادے تو کہنا،

........ جابر ساگر

دن بھر کی مصروفیت کے بعد میں نے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ آہٹ پاکر میرا ڈیڑھ سالہ چھوٹا بیٹا حمّاد اپنی ناتواں و کمزور ٹانگوں کے سہارے لڑکھڑاتا ہوا میری طرف لپکا، اسکے ننّھے ننّھے ہونٹوں سے "ابّا ابّا" کی دل گُداز صدائیں بھی آرہی تھیں، اسکی درد بھری اور رِقّت آمیز صدا سن کر میں بھی اس کی طرف دوڑ پڑا اور اسے اٹھا کر سینہ سے بھینچ لیا، سینہ سے لگاتے ہی وہ بے قراری جو اسکے ہونٹوں سے ابّا ابّا کی صدا بن کر اُبھر رہی تھی قرار پا گئی، چند گھنٹوں کی جدائی سے جو کرب اس کے چہرے پر عیاں تھا اب وہ کافور ہوچکا تھا،اس کا چہرہ چمک اُٹھا اور وہ مطمئن ہوکر مجھ سے کھیلنے لگا، کبھی وہ میری داڑھی سے کھیلتا تو کبھی کان مروڑ رہا ہوتا اور یہ سب کرکے وہ بے حد خوش تھا،
یہ محبّت کا وہ رِشتہ ہے جو خالق نے مخلوق کے دلوں میں وَدِیعت کررکھا ہے،
ایسی ہی مثال بندے کی اپنے رب کے ساتھ محبت اور راز ونیاز کی ہے، بندہ خواہ رب سے کتنا ہی دور کیوں نہ چلا جائے اور یہ فرقت کتنی ہی لامبی کیوں نہ ہو لیکن جب ربِّ کریم کی محبّت کی آہٹ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے تو "اللہ اللہ اللہ اللہ" کی دل گُداز صدائیں دے کر رَب کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور رب کو متوجہ پاکر اسکی طرف قدم بڑھاتا ہے لیکن گناہوں کے بوجھ تَلے اسکے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور وہ گِرتے پَڑتے رب کی طرف چل پڑتا ہے اور اُدھر ربِ کریم بندہ کے دل سے نکلی صدا کو سنتے ہیں اور بندہ کو اپنی طرف قدم بڑھاتا دیکھ کر اس کی طرف دوڑ لگادیتے ہیں،
" وَاِن اَتَانِی یَمشِی اَتَیتُه ھَروَله "
گناہوں سے پَراگندہ، معاصی میں ملوَّث و بے قرار بندہ خدائے کریم کے سایۂ محبّت میں آکر قرار محسوس کرتا ہے،
خدا نے محبّت کے کئی حصّے فرما کر صرف ایک حصّہ مخلوق کو عطا فرمایا ہے، محبّت کا یہی وہ رشتہ ہے کہ ماں اپنے بچّہ کو دودھ پلاتی ہے، یہی وہ محبّت ہے کہ جب بچّہ روتا بِلکتا ماں کے سینہ سے چِمٹ جاتا ہے تو قرار حاصل کرتا ہے،
ذرا سوچیں !!! اُس خدا کی محبّت کا کیا عالَم ہوگا جو اپنے بندوں سے ستّر ماؤں کی محبّت سے زیادہ محبّت کرتا ہے،
تو ہمیں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے سے ؟
پس......لو لگاؤ اپنے رب کی طرف جو بے انتہاء محبّت کرنے والا ہے،
272 views12:52
باز کردن / نظر دهید
2021-04-11 23:41:08 رخصتی

راحتِ جاں ناز پرور سب مسرّت تم سے ہے
افتخار و شادمانی کی یہ دولت تم سے ہے
خانۂ آباد کی یہ شان و شوکت تم سے ہے
رونقِ بزمِ عروسی کی ضمانت تم سے ہے

محفلِ شادی کی رونق دائمی ہو شاد باد
رنگِ عشرت سے مزیّن آرسی ہو شاد باد
آنے والی زندگی کی ہرگھڑی ہو شاد باد
اک نئے جیون کی خاطر رخصتی ہو شاد باد

دیر تک تازہ گلابوں کی مہک باقی رہے
پھول چہرے پر تبسم کی دھنک باقی رہے
عمر بھر تابندہ سہرے کی چمک باقی رہے
اِن سہاگن چوڑیوں کی ہر کھنک باقی رہے

ہو مبارک تم کو اپنی زندگانی کا سفر
اک نئے بندھن میں دل کی شادمانی کا سفر
اک نئی دنیا میں دشتِ جاودانی کا سفر
رحمتِ حق سے ہو ثابت کامرانی کا سفر

زندگی کے راستے میں آگہی ہو ہر قدم
آرزوئیں کامراں ہوں بس خوشی ہو ہر قدم
جس طرف جاؤ سفر میں روشنی ہو ہر قدم
رشک سے منزل تمہی کو دیکھتی ہو ہر قدم

چاند تاروں سے سجی اِک کہکشاں تم کو ملے
تم جہاں جاؤ مقدّر مہرباں تم کو ملے
ہمسفر کا ساتھ اپنے جاوداں تم کو ملے
بجلیوں سے دُور ہو وہ آشیاں تم کو ملے

آج بچپن کی سکھی سنگت سے ناتا توڑ کر
اپنے پیاروں کی رفاقت سے توجہ موڑ کر
اک نئی نسبت سے اپنی ہر تمنا جوڑ کر
اپنے بابل کے بھرے گھر کو اکیلا چھوڑ کر

کہہ رہی ہو الوداع اشکوں بھری آنکھوں کے سنگ
لگ کے سینے رو رہی ہو بھایئوں بہنوں کے سنگ
لو تمہیں رخصت کیا اب اَن کہے لفظوں کے سنگ
جاؤ تم مہماں سرا سے اپنے گھر خوشیوں کے سنگ

میٹھی یادوں کی مہکتی سی ہوائیں اپنے ساتھ
بھَولے بچپن کی سنہری سی فضائیں اپنے ساتھ
اپنے دامن میں بھرے گھر کی وفائیں اپنے ساتھ
نورِ دل ماں باپ کی لے جا دعائیں اپنے ساتھ

لو مبارک ہو تمہیں وقتِ سفر اب الوداع
باندھ کر اشکوں کے سب لعل و گہر اب الوداع
جاؤ بابل کے نگر سے اپنے گھر اب الوداع
اے مری دختر مری نورِ نظر اب الوداع
284 views20:41
باز کردن / نظر دهید
2021-04-11 13:23:00 *جِن اور عورت* *ـــــــــــــــــــــــــ*
*ـــــــــــــــــــــــــ* *مُشتاق احمد یوسفی*

گندے برتنوں کے ڈھیر سے گھبرا کر بیوی بڑبڑائی ''چراغ کا جن ہمیشہ مردوں کو ہی کیوں ملتا ہے ؟ ... خواتین کو کیوں نہیں ملتا...کاش !
آج میرے پاس بھی کوئی جِن ہوتا تو میرا بھی ہاتھ بٹا دیتا‘‘۔
بیوی کی یہ معصوم خواہش سن کرایک بہت بڑا جِن ظاہر ہوا اور بولا ''قوانین کے مطابق ایک خاتون کو ایک وقت میں ایک ہی جِن مل سکتا ہے۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق تمہاری شادی ہو چکی ہے۔ اور تمہیں تمہارا جِن مل چکا ہے۔اسے ابھی تم نے سبزی منڈی بھیجا ہے۔ راستے میں ٹیلر سے تمہارا سوٹ لیتے ہوئے۔ گروسری سے گھر کا سامان لائے گا ۔ یاد سے تُمہارے لیے سر درد کی دوا بھی لازمی لائے گا۔ اس کے بعد وہ اپنے کام کاج پر جائے گا ...... اور......... آتے آتے شام کو تُمہارے لیے تمہاری پسند کی آئس کریم بھی لے آئے گا .. !!
تُمہارا جِن اگرچہ تھوڑا ٹائم زیادہ لیتا ہے ، مگر چراغ والے جِن سے زیادہ محنتی اور زیادہ کام کرنے والا ہے اور اتنا کچھ کرنے کے بعد ذلیل وخوار بھی ہو گا۔ یہ سب ہمارے بس سے باہر ہے‘‘​
297 views10:23
باز کردن / نظر دهید
2021-04-09 01:06:50 تری ذات سب سے عظیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو ہر اک سے بڑھ کے کریم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو قدیر ہے تو بصیر ہے، تو نصیر ہے تو کبیر ہے

تو خبیر بھی تو علیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو غفور بھی تو شکور بھی، تو ہی نور بھی تو صبور بھی

تو حفیظ ہے تو حلیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو ہے منتقم تو وکیل بھی، تو ہے مقتدر تو کفیل بھی

تو ہی نعمتوں کا قسیم ہے تری شان جل جلالہٗ

مِلا حمد و نعت کا شوق جو، یہ مُشاہدِؔ عصیاں شعار کو

یہ ترا ہی فضلِ عمیم ہے تریہ شان جل جلالہٗ
432 views22:06
باز کردن / نظر دهید
2021-04-08 20:09:43 حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ!
⁦ ⁩ : شمس الدین سراجی

یوں تو اس چمن کا ہر پھول نرالا ہے لیکن حضرت حکیم الامتؒ کی بات ہی کچھ اور ہے، زمانہ طالب علمی سے ہی کچھ کر گزرنے کا شوق تھا چنانچہ ١٢ سال کی عمر میں ہی تہجد مع وظائف شروع کر دیئے تھے، ١٩ یا ٢٠ سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ ہوگئے، حضرت تھانوی ؒ کی عاجزی و انکساری کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب فراغت کے سال دیوبند میں دستاربندی ہونے والی تھی، تو حضرت تھانویؒ اپنے استاذ محترم حضرت مولانا محمد یعقوبؒ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت ہم اس قابل نہیں ہے کہ ہمیں مدرسہ کی جانب سے سند فراغت سے نوازا جائے، اگر آپ ایسا کریں گے تو مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی، حضرت استاذ محترم جواب میں گویا ہوے کہ ابھی آپ اپنی شخصیت سے واقف نہیں ہے، اور زمانہ طالب علمی کی یہی شان بھی ہے لیکن جب آپ مدرسہ سے باہر قدم رکھیں گے تب آپ کو اپنی ہستی کا اندازہ ہوگا، چنانچہ استاذوں کے سمجھانے کے بعد آپ دستاربندی کے لئے راضی ہو گئے، حضرت گنگوہیؒ کے مقدس ہاتھوں سے دستاربندی بندی ہوی۔۔۔۔
(#ایک_نظر_علمی_خدمات_پر)
1857 کی جنگ آزادی جس جنگ کو انگریزوں نے غدر کے نام سے موسوم کیا، اس جنگ میں ناکامی کے بعد جب انگریز فوجوں نے انتقام لیا، اور لوگوں کا گاجر مولی کی طرح قتل عام کیا، مسلمانوں کے سینکڑوں افراد کو پھانسی پر چڑھایا، اس وقت مسلمان جب سب کچھ کھو کر ایک نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر رہے تھے، تو مسلم معاشرے کی چاروں بنیادی چیزیں یعنی قرآن کریم، حدیث و سنت، فقہ حنفی، اور سلوک و احسان یہ سب بھی خطرات سے دوچار ہوئے ، چنانچہ قرآن کریم کی وہ تعبیر و تشریح جو صحابہ کرامؓ کے دور سے اجتماعی تعامل و توارث کی صورت میں اب تک چلی آ رہی تھی، اسے ماضی کا حصہ قرار دے کر نئی تعبیر و تشریح کا نعرہ لگا دیا گیا، کہ اب اس کی تفسیر وغیرہ عقل اور جدید سائنس کے مطابق کی جائے، اور ادھر سنت و حدیث اور فقہ وغیرہ کی ضرورت سے ہی انکار کر دیا، ایسے حالات میں ضرورت تھی کہ کوئی ایسا رہبر رونما ہو جو انکی صحیح رہنمائی کر سکے، کوئی ایسا محدث ہو جو حدیث کی ضرورت کو دلائل کی روشنی میں واضح کر سکے ۔۔۔۔۔
چنانچہ ایسے ماحول میں ایک ستارہ رونما ہوا جن کا نام حضرت حافظ غلام مرتضٰی پانی پتیؒ نے اشرف علی رکھا اور آج دنیا انہیں حکیم الامتؒ کے لقب سے پکارتی ہے، حضرت نے وہ ساری خدمات انجام دیئے جو وقت کا تقاضہ تھا، چنانچہ علمی خدمات انجام دیتے ہوئے ٨٠٠ سے زائد کتابیں تصنیف فرمادیں، حضرت نے جو تعلیم و تربیت، سلوک و معرفت، اور تلقین و ارشاد کے ذریعے اس صدی میں خدمات انجام دی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔۔۔۔۔۔
حضرت کی مثالی زندگی کے بارے میں کیا کہا جائے، وہ تو سورج کی طرح تھے، جس کا کام ہی ہوتا ہے، اندھیروں کو بھگانا اور اجالے کا لانا، یہ حضرت تھانوی کی ہی برکت ہے کہ ہمارے پاس اتنا علمی ذخیرہ موجود ہے ورنہ تو اس جنگ کے بعد یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب ہمارے ہاتھوں سے سارا علمی ذخیرہ چلا ہی جائے گا چنانچہ ان کے انہیں خدمات کو دیکھ کر ان کو "مجدد الملت" کہا گیا۔۔۔۔۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی زندگی میں وہ خدمات انجام دیں، جس کو تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی، جب تک آپ اس دنیا میں زندہ رہے اپنے قول و فعل سے ہزاروں کی زندگیوں کو سنوارا، اور اس دارفانی سے رخصت فرمانے کے بعد بھی آپ کے علمی خدمات سے ہزاروں لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں، اور بڑے بڑے علماء آپ کے خوشہ چیں ہیں وہ آپ کی تصنیف کردہ کتاب سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ شرف قبولیت عطا فرمایا کہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی آپ لوگوں کی دلوں میں زندہ ہیں ۔۔۔
اللہ تعالیٰ حضرت کو جنت میں بہترین مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین یارب العالمین
#شمس_الدین_سراجی
393 views17:09
باز کردن / نظر دهید
2021-04-08 16:07:36 *(مسلمان چرواہے کا یہ عالَم ہےتو، عالِم کا کیا عالَم ہوگا۔۔۔۔؟*)

ایک یہودی کا گزر مسلمانوں کی ایک بستی سے ہوا ۔ اس کے دل میں ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ میں اُنہیں ان کے دین کے تعلق سے ان کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کروں۔۔۔۔۔؟
اور انہیں ان کے علماء سے بد ظن کردوں۔

بستی میں داخل ہونے سے پہلے ہی ایک چرواہے سے ملاقات ہوئی ۔ یہودی نے سوچا کہ کیوں نہ اسی جاہل سے اس کی ابتداء کی جائے اور اس چرواہے کے دل ودماغ میں اسلام کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کیا جائیں
یہودی نے اس چرواہے سے ملاقات کی اور کہا کہ میں ایک مسلمان مسافر ہوں۔ باتوں ہی باتوں میں یہودی کہنے لگا کہ ہم مسلمان قرآن مجید کو یاد کرنے کے لئے کتنی مشقت اٹھاتے ہیں جب کہ یہ قرآن تیس اجزاء پر مشتمل ہے۔ لیکن قرآن میں بیشمار آیات متشابہ ہیں جو ایک جیسی ہی ہیں۔ بار بار دہرانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر متشابہات کو نکال دیاجائے تو قرآن اور بھی مختصر ہوجائے گا اور یاد کرنے میں بہت آسانی بھی ہوجائے گی۔
چرواہا اس کی بات غور سے سنتا رہا اور خاموش رہا ۔ جب یہودی کی بات مکمل ہوئی تو چرواہے نے کہا کہ واہ تمہارا خیال تو بہت اچھا ہے ۔ یہودی دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ یہ چرواہا میرے جال میں آگیا ہے ۔
پھر اچانک چرواہے نے کہا کہ میرا ایک سوال ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
یہودی نے کہا : پوچھئے تو صحیح۔۔۔۔۔۔۔؟
تم چاہتے ہوکہ قرآن میں جو متشابہات یا تکرار ہے اس کو نکال دینا چاہئے..؟
ہاں بالکل میرا یہی خیال ہے کہ جو آیت ایک مرتبہ سے زیادہ ہو اس کو قرآن سے خارج کردیا جائے تو قرآن مختصر ہوجائے گا اور یاد کرنے میں آسانی بھی ہوگی۔
چرواہے نے کہا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمہارے بدن پر بھی بعض اعضاء ایک سے زیادہ ہیں جو تکرار پیدا کررہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے،
کیوں نہ تمہارے دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو کاٹ دیا جائے۔ دو پیروں میں سے ایک پیر ہی رکھا جائے اس لئے کہ یہ تکرار ہے۔ دو دو آنکھوں کی کیا ضرورت ہے کام تو ایک آنکھ سے بھی پورا ہوسکتا ہے کیوں نہ تمہاری ایک آنکھ بھی نکال دی جائے۔ دو کان اور دو گردوں کی کیا ضرورت ہے اس میں بھی تکرار ہے ۔ اگر ان تمام تکرار والے اعضاء کو نکال دیا جائے تو تمہارا بدن بھی ہلکہ ہوجائے گا ۔ اور غذا کی مقدار بھی کم ہوجائے گی اور تمہیں زیادہ جدوجہد کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، کیا خیال ہے..؟
یہودی اپنا سیاہ منہ لیکر فورا اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی راہ لی. زندگی بھر یہی سوچتا رہا کہ جب مسلمانوں کے چرواہے کی یہ فکر ہے تو ان کے علماء کے افکار کیسے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔؟
348 views13:07
باز کردن / نظر دهید
2021-04-08 00:33:23 اردو کی حیرت انگیزیاں۔۔

اردو  زبان میں ایسے کئی الفاظ موجود ہیں جن کو دائیں سے بائیں لکھا اور پڑھا جائے تو ایک لفظ اور اُسی لفظ کو بائیں سے دائیں جانب لکھا یا پڑھا جائے تو ایک نیا لفظ بن جاتا ہے۔ بچوں کے لیے یہ انتہائی کارآمد اور بہترین ذہنی آزمائش ہے۔

مثال:

ایک۔کیا۔۔۔انیس۔سینا۔۔۔اویس۔سیوا۔۔۔انور۔رونا۔۔۔اناج۔جانا۔۔۔اریب۔بیرا۔۔۔اوس۔سوا۔۔۔ارم۔مرا۔۔۔الگ۔اگلا۔۔۔بارش۔شراب۔۔۔بیج۔جیب۔۔۔بات۔تاب۔۔۔بابر۔رباب۔۔۔بابرا۔ارباب۔۔۔بل۔لب۔۔۔بار۔راب۔۔۔بٹ۔ٹب۔۔۔بک۔کب۔۔۔پان۔ناپ۔۔۔تاریخ۔خیرات۔۔۔تب۔بت۔۔۔تم۔مت۔۔۔ترازو۔وزارت۔۔۔تار۔رات۔۔۔جب۔بج۔۔۔جال۔لاج۔۔۔جرح۔حرج۔۔۔چین۔نیچ۔۔۔چوس۔سوچ۔۔۔حور۔روح۔۔۔دال۔لاد۔۔۔در۔رد۔۔۔درس۔سرد۔۔۔دم۔مد۔۔۔رانا۔انار۔۔۔راز۔زار۔۔۔روز۔زور۔۔۔ریت۔تیر۔۔۔ریشم۔مشیر۔۔۔رش۔شر۔۔۔روس۔سور۔۔۔رن۔نر۔۔۔ران۔نار۔۔۔راہ۔ہار۔۔۔روڈ۔ڈور۔۔۔روم۔مور۔۔۔سیپ۔پیس۔۔۔سر۔رس۔۔۔ساکن۔نکاس۔۔۔سیر۔ریس۔۔۔سیپ۔پیس۔۔۔سب۔بس۔۔۔شور۔روش۔۔۔شوخ۔خوش۔۔۔شام۔ماش۔۔۔شک۔کش۔۔۔طرف۔فرط۔۔۔طول۔لوط۔۔۔عرش۔شرع۔۔۔فرح۔حرف۔۔۔قد۔دق۔۔۔قمر۔رمق۔۔۔کپ۔پک۔۔۔کون۔نوک۔۔۔کر۔رک۔۔۔گول۔لوگ۔۔۔گم۔مگ۔۔۔لاش۔شال۔۔۔لات۔تال۔۔۔لاگ۔گال۔۔۔لیکن۔نکیل۔۔۔ماما۔امام۔۔۔مرچ۔چرم۔۔۔موچ۔چوم۔۔۔مار۔رام۔۔۔من۔نم۔۔۔نام۔مان۔۔۔نچ ۔چن۔۔۔ناک۔کان۔۔۔نس۔سن۔۔۔نگ۔گن۔۔۔نار۔ران۔۔۔وہ۔ہو۔۔۔ہجو۔وجہ۔۔۔ہم۔مہ۔۔۔ہے۔یہ۔۔۔یک۔کی ۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
360 views21:33
باز کردن / نظر دهید